فلسطینی علاقے مغربی کنارے کے شہر رملہ میں کرونا وائرس سے تمام کاروباروں، خاص طور پر ریستورانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، لیکن ایسے میں کھانے پینے کی چیزوں کا جو ایک کاروبار بہت ترقی کر رہا ہے، اس کا نام ہے فوڈ ٹرک۔
کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی غرض سے نافذ پابندیوں کی وجہ سے زیادہ تر ریستوران اور کھانے پینے کی جگہیں بند ہیں تاہم حکام نے فوڈ ٹرک پر کھانے کی اشیا فروخت کرنے والوں کو اپنا کاروبار جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
مغربی کنارے میں کرونا کیسز کی تعداد 35 ہزار سے زیادہ ہے جب کہ 250 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
فوڈ ٹرک کے کاروبار سے ایسے افراد منسلک ہیں جن کے پاس سرمائے کی قلت ہے اور وہ دکان کھول کر اس کے اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ لیکن کرونا وائرس ان کے لیے روشنی کی ایک کرن بن کر آیا ہے اور ان کا کاروبار خوب چمک اٹھا ہے۔
ایک ایسے علاقے میں جہاں بے روزگاری کی شرح 20 فی صد سے زیادہ ہے، فوڈ ٹرک کو ایک پھلتے پھولتے ہوئے کاروبار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے عیسی حج یاسین ایک فوڈ ٹرک چلاتے ہیں۔ انہوں نے یہ کاروبار یونیورسٹی کی فیس اور اپنے دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے شروع کیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تو شروع کے مہینے بہت سخت تھے۔ سب کچھ بند تھا۔ لیکن بعد میں انتظامیہ نے فوڈ ٹرک والوں کو اجازت دے دی۔ کیونکہ وائرس کی خراب صورت حال کی وجہ سے لوگوں کو ریستورانوں میں جانے کی اجازت دینا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے فوڈ ٹرک کے بزنس کو ترقی دی ہے۔ میں اب پہلے کے مقابلے میں دگنا کما لیتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے میں اکیلا تھا۔ اب میرے پاس چھ ملازم ہیں۔ میرے پاس دو فوڈ ٹرک ہیں۔ میں ایک اور ویگن خریدنے اور اس کے لیے چار ملازم رکھنے کی تیاری کر رہا ہوں۔
یاسین اپنے ٹرک کو رملہ کے مرکزی حصے میں ایک سڑک کے کنارے کھڑا کر دیتے ہیں۔ اس علاقے میں کافی لوگ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لوگ میرے ٹرک کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ برگر اور ہاٹ ڈاگ اور اسی طرح کی چیزوں کا آرڈر دیتے ہیں۔ گاہکوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ انہیں اپنا آرڈر وصول کرنے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
محمد شکوکانی نے بھی ایک ویگن پر کھانے پینے کا کاروبار شروع کیا ہے۔ وہ رملہ میں اپنی ویگن پر کافی بیچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ویگن پر کاروبار کرنے کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ جب ایک جگہ گاہک ختم ہو جاتے ہیں تو میں اپنی ویگن کو دوسری جگہ لے جاتا ہوں، جہاں گاہک میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
کرونا وائرس نے فلسطینیوں کی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ سال اس علاقے میں ایک فی صد سالانہ کی رفتار سے معاشی ترقی ہو رہی تھی جب کہ عالمی بینک نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سال کے دوران فلسطین کی معیشت کو ساڑھے سات سے 11 فی صد کمی کا دھچکہ سہنا پڑ سکتا ہے۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطین میں کرونا وائرس سے پہلے غربت کی شرح 25 فی صد کے لگ بھگ تھی جو اب 30 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔