سینیٹ آف پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کیے جانے کے باوجود سیاسی جماعتیں اس مطالبے سے دُوری اختیار کر رہی ہیں۔
سینیٹ سے کثرتِ رائے سے منظور ہونے والی اس قرارداد کو کسی بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے حمایت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریکِ انصاف انتخابات کے التوا کے مطالبے کی مخالفت کر رہی ہیں۔
یہ قرارداد ایسے وقت میں منظوری کے لیے پیش کی گئی ہے جب 100 ارکان پر مشتمل ایوان میں صرف 14 سینیٹرز موجود تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ امن و امان اور موسم کے جواز کو سامنے رکھ کہ یہ کہنا کہ الیکشن ملتوی کیے جائیں یہ مناسب نہیں ہے کیوں کہ ممالک میں جنگ کے دوران بھی الیکشن ہوتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ہر وقت جمہوریت کے خلاف سازش ہوتی رہتی ہے اور سینیٹ سے منظور ہونے والی یہ قرارداد بھی بغیر ایجنڈے پر لائے منطور کروائی گئی۔
'الیکشن التوا کی قرارداد کو رد کروائیں گے'
پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے سینیٹ میں پیش کی گئی قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں پیش کی گئی قرارداد ایجنڈے میں شامل نہیں تھی اور چیئرمین سینیٹ نے آج سازشی کردار ادا کر کے سینیٹ کو سازش کا گڑھ بنا دیا ہے۔ قرارداد کو سینیٹ میں نئی قرارداد لا کر رد کروایا جائے گا۔
'الیکشن ہوں لیکن نہیں چاہتے خون بہے'
انتخابات کے التوا کی قرارداد کی حمایت کرنے والے سابق قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہدایت اللہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے خلاف نہیں۔ لیکن چاہتے ہیں کہ الیکشن میں کسی کا خون نہ بہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں سے گزشتہ دو دہائیوں میں 55 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے ہیں اور وہ اب مزید لاشے نہیں اٹھا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ جماعتیں جنہیں مرضی کے انتخابی مواقع دستیاب ہیں وہ چاہتی ہیں کہ ہر صورت الیکشن ہوں چاہے اس عمل میں شورش زدہ علاقوں میں کتنا ہی خون نہ بہہ جائے۔
کیا انتخابی عمل متاثر ہو گا؟
پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی اُمور پر نظر رکھنے والے ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اتنخابات کے التوا کی سینیٹ سے منظور کردہ قرارداد ان حلقوں کی جانب سے ایک سازش ہے جو ملک میں انتخابات اور جمہوری عمل کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عام طور پر جمعے کو سینیٹ کا اجلاس نہیں ہوتا، لیکن محض ایک درجن سینیٹرز کی موجودگی میں قرارداد لانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس قرارداد پر عمل درآمد لازم نہیں ہے اور وہ بھی ایسے حالات میں جب اس قرارداد کے طریقۂ کار کے حوالے سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ لہذٰا اس سے انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس قرارداد پر عمل درآمد اس وجہ سے بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ انتخابات کے التوا کی یہ قرارداد آئین، قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا کردار ایسا رہا ہے کہ ماضی میں بھی وہ اس قسم کے غیر جمہوری اقدامات کی حمایت کرتے رہے ہیں جس سے سینیٹ کی توقیر میں کمی واقع ہوئی ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ صادق سنجرانی کی مدت مارچ میں مکمل ہو رہی ہے اور ان کے دوبارہ منتخب ہونے کی امید بھی نہیں ہے۔ لہذا یہ ان لوگوں کی سازش ہے جنہیں الیکشن کی صورت میں اپنا مستقبل غیر محفوظ لگتا ہے۔
'قرارداد کا راستہ روکنے کے بجائے سہولت کاری کی گئی'
سینیٹ اجلاس کو کوریج کرنے والے سینئر پارلیمانی صحافی ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ اگرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس قرارداد کی مذمت کر رہی ہیں۔ لیکن ایوان کے اندر دونوں جماعتوں نے اس قرارداد کا راستہ روکنے کے بجائے سہولت کاری کی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ قرارداد منظور کی گئی تو ایوان میں محض 14 ارکان موجود تھے اور اگر کورم کی نشاندہی کر دی جاتی تو یہ قرارداد منظور نہیں ہو سکتی تھی۔
اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز قرارداد کی مخالفت کرنے پر داد لے رہے ہیں، لیکن ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کورم کی نشاندہی کیوں نہیں کی؟
ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں نے اس قرارداد کی منظوری میں دہرا عمل اختیار کیا ہے، مخالفت بھی کر رہے ہیں اور قرارداد منظور ہونے کی راہ بھی ہموار کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہیں ہوتے تو اس کے نتیجے میں مارچ میں سینیٹ کا ایوان بھی اپنا وجود کھو دے گا۔
فورم