رسائی کے لنکس

ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی؛ فٹنس مسائل یا کوئی اور وجہ؟


کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی سے جہاں شائقینِ کرکٹ مایوس ہیں وہیں سابق کرکٹرز کی تنقید بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

بابر اعظم کی قیادت میں گرین شرٹس نے ایونٹ میں پانچ میچز کھیلے ہیں جس میں سے تین میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جو دو میچ پاکستان نے جیتے وہ دونوں کوالی فائی کر کے ایونٹ میں جگہ بنانے والی سری لنکا اور نیدرلینڈز کے خلاف تھے۔

لیجنڈری فاسٹ بالر وسیم اکرم نے ٹیم کے فٹنس معیار پر سوال اٹھائے ہیں تو سابق کپتان و چیئرمین رمیز راجہ نے ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر اسے 'راک باٹم' یعنی سب سے نچلی سطح پر موجود کہا ہے۔

ورلڈ کپ کی کمنٹری ٹیم میں شامل وقار یونس کی وہ ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں انہیں افغانستان کے ہاتھوں پاکستان کی شکست کے موقع پر افسردہ کمنٹری باکس میں خاموش بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔

ان سب کے باوجود ٹیم کے کپتان بابر اعظم، نائب کپتان شاداب خان اور ٹیم مینجمنٹ پر امید ہے کہ گرین شرٹس اگلے چاروں میچز جیت کر ایونٹ کے سیمی فائنل میں جگہ بنا لیں گے۔

میگا ایونٹ سے قبل نہ صرف گرین شرٹس نے ون ڈے انٹرنیشنل رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن حاصل کر لی تھی بلکہ اس کے دو بلے باز ٹاپ ٹین فہرست میں شامل بھی تھے۔

لیکن ورلڈ کپ میں مسلسل تین ناکامیوں نے اسے ٹاپ رینکنگ سے بھی محروم کردیا اور ایونٹ کی ٹاپ فور پوزیشن سے بھی، گرین شرٹس کی تنزلی کی وجہ کیا ہے؟ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا پاکستان ٹیم واقعی ورلڈ کپ میں شامل تمام ٹیموں سے زیادہ ان فٹ ہے؟

میگا ایونٹ سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ 10 ٹیموں میں سے سب سے زیادہ مضبوط بالنگ اٹیک پاکستان کا ہے۔ لیکن گرین شرٹس کی کارکردگی توقعات کے برعکس رہی۔

ان فارم شاہین شاہ آفریدی سمیت تمام ہی بالرز ورلڈ کپ کے دوران مہنگے ثابت ہوئے جس کی وجہ سے پہلے بھارت پھر آسٹریلیا اور افغانستان کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی۔

ایسے میں پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کا ٹیم میں اندرونی اختلافات کی خبروں کو رد کرنا اور پھر شائقین اور سابق کھلاڑیوں سے ٹیم کو سپورٹ کرنے کی اپیل پر ماہرین کے مطابق معاملات ویسے نہیں جیسے گزشتہ ماہ ورلڈ کپ روانگی سے پہلے تھے۔

ماہرین کی رائے میں سلیکشن کے معاملات سے لے کر فٹنس کے معیار تک، ٹیم مینجمنٹ نے ہر لیول پر سمجھوتہ کیا جس کا انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔

ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنی رائے دیتے ہوئے سابق کپتان وسیم اکرم نے ٹیم مینجمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ لڑکے پروفیشنل کرکٹرز تو ہیں لیکن ان کی فٹنس اس لیول کی نہیں۔

افغانستان کے ہاتھوں شرمناک شکست کے بعد وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کی فٹنس نے انہیں مایوس کیا جب دو دو سال سے فٹنس ٹیسٹ نہیں ہوں گے تو پرفارمنس ایسی ہی ہو گی۔

وسیم اکرم نے اس تمام صورتِ حال کا ذمہ دار پی سی بی کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ چونکہ کھلاڑی فٹنس ٹیسٹ کے حق میں نہیں، اس لیے ان کی سلیکشن بغیر فٹنس کا جائزہ لیے ہی کردی گئی جو کہ ناقابلِ قبول ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ سابق کپتان و کوچ مصباح الحق فٹنس کے حق میں تھے اس لیے کھلاڑی انہیں پسند نہیں کرتے تھے جس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے آ گیا ہے۔

جب وائس آف امریکہ نے اس بارے میں سابق کپتان، کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ تو نہیں معلوم کہ آخری بار فٹنس ٹیسٹ کب ہوا تھا۔ لیکن ان کی فٹنس سے ایسا نہیں لگتا کہ حال میں ہوا ہو گا۔

مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ایشو ٹاپ کلاس فٹنس ٹرینرز کا نہیں، کھلاڑیوں کی اپنی چوائس کا ہے کیوں کہ جو فٹنس ٹرینرز ان کے زمانے میں تھے،وہی آج بھی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا جب وہ کرکٹ ٹیم کا بطور کھلاڑی حصہ تھے، تو ان کے سامنے یونس خان ایک فٹنس کی اعلیٰ مثال تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان تمام اسٹینڈرڈز کو فالو کریں جسے دوسری ٹیمیں فالو کیا کرتی تھیں لیکن اب شاید ایسا نہیں ہوتا۔

مصباح الحق نے یہ بھی بتایا کہ کھلاڑی کی ذمے داری ہوتی ہے کہ اپنے وزن کا خیال رکھے، فوڈ ان ٹیک میں ڈسپلن کسی بھی کھلاڑی کو فٹ رکھنے کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ کوچ بنے تو انہوں نے اس وقت کے فٹنس اسٹینڈرڈز لاگو کرنے کی کوشش کی جس میں یو یو ٹیسٹ، ایک کلومیٹر ٹائم ٹرائل کے ساتھ ساتھ بینچ پریس، اسکواٹس، اور بینچ پل قابلِ ذکر تھے۔

ان کے مطابق یہ ایکسرسائز فٹنس ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے نہیں بلکہ کھلاڑیوں کی ٹریننگ کو دماغی طور پر مضبوط کرنے کے لیے تیار کی جاتی ہیں تاکہ کھلاڑی گراؤنڈ میں فٹ نظر آسکیں۔

سوشل میڈیا صارفین بھی مصباح الحق کی باتوں سے متفق ہی نظر آتے ہیں، کسی نے حارث رؤف کے بڑھتے وزن کی جانب نشاندہی کی۔

تو کسی نے آؤٹ آف فارم امام الحق کی پریس کانفرنس میں ڈائیٹ پر لیکچر کو مضحکہ خیز قرار دیا۔

سابق کھلاڑیوں نے شکستوں کا ملبہ پی سی بی پر ڈال دیا

پاکستان کرکٹ ٹیم ابھی ورلڈ کپ سے باہر نہیں ہوئی ہے اور اسے اگر سیمی فائنل میں پہنچنا ہے تو اپنے اگلے چاروں میچز جیتنا ہوں گے۔ لیکن سابق پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ کے خیال میں ایسا تب ہی ہو گا جب بابر اعظم ایک اچھے لیڈر کی طرح قیادت کریں گے۔

اپنے یوٹیوب چینل پر افغانستان کے خلاف شکست کے بعد تجزیہ دیتے ہوئے رمیز راجہ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کا وقت آ گیا ہے، نئے ٹیلنٹ کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔

سابق کپتان کے مطابق نئے آئیڈیاز ہی پاکستان کرکٹ ٹیم کو اس پستی سے باہر نکال سکتے ہیں جس پر وہ پہنچ چکی ہے۔ ان کے بقول اگر بابر اعظم کو خود اپنے آپ کو بطور لیڈر منوانا ہے تو آگے بڑھ کر لیڈ لینا ہوگی۔

سابق کپتان معین خان نے بھی ایک نجی ٹی وی چینل پر تجریہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کا ذمے دار کوئی اور نہیں، کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ ہے۔

ان کے خیال میں میگا ایونٹ سے پہلے سری لنکا کے مشکل گراؤنڈز پر متواتر سیریز کھیلنے کی وجہ سے کھلاڑی دماغی اور جسمانی طور پر تھک گئے تھے جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہوئی۔

انہوں نے اپنا تجربہ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ سری لنکا کے گراؤنڈ میں کھلاڑیوں کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے، وہاں پہلے سری لنکا سے ٹیسٹ سیریز پھر افغانستان کے ساتھ ون ڈے سیریز اور آخر میں ایشیا کپ کے میچز کھیلنے کی وجہ سے کھلاڑی فیلڈ پر تھکے تھکے نظر آئے۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG