|
اسلام آباد -- مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن دلچسپ ہو گئی ہے۔ ایک جانب جہاں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان کی تعداد بڑھ جائے گی تو وہیں حکمراں اتحاد کی عددی برتری بھی کم ہو جائے گی۔
سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں تحریکِ انصاف کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا ہے جس کے بعد تحریکِ انصاف قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ سپریم کورٹ نے مئی میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا اور اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ ارکان اپنی رُکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی 77 مخصوص نشستوں پر ارکان اپنی نشستوں سے فارغ ہو جائیں گے۔ ان کی جگہ تحریکِ انصاف کی جانب سے جمع کرائی گئی ترجیحی فہرست کے مطابق ارکان اسمبلی آئیں گے۔ قومی اسمبلی میں خواتین کی 19 اور تین اقلیتی نشستیں اب تحریکِ انصاف کو مل جائیں گی۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے حصے میں آنے والی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کو 14، پیپلزپارٹی کو پانچ جب کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو تین اضافی نشستیں دے دی گئی تھیں۔
تحریکِ انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی
الیکشن کمیشن کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں حکمراں اتحاد میں تقسیم کرنے سے اسے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل گئی تھی۔
قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان درکار تھے مگر حکمراں اتحاد میں شامل پارٹیوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 230 تک پہنچ گئی تھی۔
سنی اتحاد کونسل کی نشستیں ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 123 اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ارکان کی تعداد 73 تک پہنچ گئی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) 22، مسلم لیگ (ق) پانچ اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے چار ارکان تھے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے ارکان کی تعداد 115 ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ کامیاب آزاد ارکان نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر لیا تھا جس کے مجموعی ارکان کی تعداد 84 جب کہ تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آٹھ ارکان ملا کر یہ تعداد 92 تھی۔ اب مخصوص نشستیں ملنے سے یہ تعداد 115 ہو جائے گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حکمراں اتحاد کے ارکان کی تعداد کم ہو کر 210 ہو جائے گی جس میں مسلم لیگ (ن) کے 108 اور پیپلز پارٹی کے 68 ارکانِ اسمبلی رہ جائیں گے۔
اس طرح حکمراں اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تو کھو دے گا مگر حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی بھی نہیں رہ سکے گی۔
کیا پیپلزپارٹی کی اہمیت بڑھ گئی ہے؟
پارلیمانی روایات کے تحت قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی کا وفاق میں حکومت بنانے کا حق سمجھا جاتا ہے مگر تحریکِ انصاف قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی بن جانے کے باوجود بھی اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔
ماہرین کے مطابق اس صورتِ حال میں پیپلز پارٹی کی اہمیت بڑھ جائے گی کیوں کہ اگر وہ اپنا وزن تحریکِ انصاف کے پلڑے میں ڈال دے تو شہباز شریف کی حکومت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
اس وقت اپوزیشن جماعتوں میں شامل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آٹھ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کا ایک اور مجلسِ وحدت مسلمین کا ایک رُکن ہے اور اگر یہ جماعتیں بھی تحریکِ انصاف کے ساتھ مل جائیں تو یہ تعداد 126 تک پہنچ جاتی ہے۔
سینیٹ کی صورتِ حال اب کیا ہو گی؟
اس وقت سینیٹ میں تحریکِ انصاف کے سینیٹرز کی تعداد 20 ہے جب کے اس وقت سینیٹ میں سب سے زیادہ ارکان کی تعداد رکھنے والی پارٹی پیپلز پارٹی ہے جس کے ارکان کی تعداد 24 ہے۔
خیبرپختونخوا میں 11 سینیٹرز کے نشستوں پر انتخابات رکے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں کل 30 مخصوص نشستیں ہیں ان میں سے پی ٹی آئی کو 25 نشستیں مل سکتی ہیں جس کے بعد پی ٹی آئی کے کے پی کے اسمبلی میں اراکین کی تعداد 115 تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق مخصوص نشستوں ملنے کے بعد 11 سینیٹرز کی خالی نشستوں میں سے تحریکِ انصاف نو نشستیں جیت سکتی ہے جس کے بعد سینیٹ میں پی ٹی آئی اراکین کی تعداد 29 تک پہنچ سکتی ہی اور اس طرح قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی پی ٹی آئی سنگل لارجسٹ پارٹی بن سکتی ہے۔
فورم