بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ میں مارے جانے والے بزرگ شہری کی ہلاکت کا معاملہ جموں و کشمیر کے اخبارات اور بھارت میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
مذکورہ تصویر میں مبینہ طور پر جھڑپ کے دوران فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے بزرگ شہری کی خون آلود لاش پر اُن کا نواسہ بیٹھا ہوا ہے۔ اس واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز کے حوالے یہ سوالات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں کہ جھڑپ کے دوران آخر یہ تصاویر کس نے بنائیں؟
واقعے کو بھارتی کشمیر کے اخبارات میں بھرپور کوریج دی گئی ہے جب کہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
انگریزی اخبار 'گریٹر کشمیر' نے صفحہ اول پر جہاں خبر شائع کی ہے۔ وہیں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے بشیر احمد خان کے جنازے کی تصویر بھی لگائی ہے۔ جنازے میں بڑی تعداد میں شہری شریک نظر آ رہے ہیں۔
'گریٹر کشمیر' کی رپورٹ کے مطابق فائرنگ کا واقعہ شمالی کشمیر کے علاقے سوپور میں پیش آیا۔ اس واقعے میں جہاں ایک سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔ وہیں ایک عام شہری بشیر احمد خان بھی فائرنگ سے مارے گئے۔ ان کے ہمراہ ان کا تین سالہ نواسہ بھی تھا تاہم وہ فائرنگ میں محفوظ رہا۔
سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ترجمان کے مطابق فائرنگ کا واقعہ صبح سویرے پیش آیا جب ایک مسجد سے سیکیورٹی اہلکاروں کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔
'گریٹر کشمیر' نے صفحہ اول پر کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کا بیان بھی شائع کیا جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ شہری بشیر احمد خان سیکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک نہیں ہوئے۔
اسی طرح ایک اور انگریزی اخبار 'کشمیر آبزرور' نے بھی صفحہ اول پر فائرنگ میں محفوظ رہنے جانے والے بچے کے حوالے سے خبر لگائی کہ اس واقعے سے پہنچنے والا ذہنی صدمہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔
اخبار نے بچے اور اس کے نانا کی وہ تصویر بھی صفحہ اول پر لگائی جس میں بشیر احمد خان فائرنگ سے ہلاک ہونے کے بعد زمین پر پڑے ہیں جب کہ ان کا تین سالہ نواسہ ان کے سینے پر بیٹھا ہوا ہے۔
'کشمیر آبزرور' کی رپورٹ کے مطابق فائرنگ کے وقت بشیر احمد خان گاڑی روک کر اپنے نواسے کے ہمراہ محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بشیر احمد خان کے بیٹے نے ایک ویڈیو میں الزام لگایا ہے کہ ان کے والد کو گاڑی روک کر اس سے اتارا گیا اور پھر انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اگر ان کی گاڑی فائرنگ کی زد میں آتی تو یقینی طور پر گاڑی پر بھی گولیوں کے نشان ہوتے مگر ایسا نہیں ہے۔
پولیس حکام نے ان کے بیٹے کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔
انگریزی اخبار 'کشمیر ٹائمز' نے لکھا کہ سوپور میں پیش آنے والے واقعے کے فوری بعد ہی بچے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں۔
یہ تصاویر سامنے آنے کے بعد بڑے پیمانے پر واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے تاہم یہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز کے مقابلے کے دوران کون تصاویر لے کر سوشل میڈیا پر شیئر کر رہا تھا حالاںکہ اس وقت وہاں کوئی صحافی موجود نہیں تھا۔
اخبار نے کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ کا بیان بھی الگ سے شائع کیا ہے جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے بچے کی ویڈیو لگانے کی مذمت کی گئی تھی۔
ایک اور انگریزی اخبار 'رائزنگ کشمیر' نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کشمیر کے آئی جی پولیس وجے کمار نے کہا ہے کہ ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ کسی بھی انکاؤنٹر یا سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران موبائل فون کا استعمال ممنوع قرار دیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موبائل فون لے جانے سے نہ صرف خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ اس سے کارروائی کا رخ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی آپریشن میں موبائل فون کا استعمال اور اسے ساتھ لے جانا مکمل طور پر ایک غلط کام ہے۔
خیال رہے کہ جب بچے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو سیکیورٹی اہلکاروں کی کچھ اور ویڈیوز اور تصاویر بھی سامنے آئیں جو اہلکاروں نے خود اپنے موبائل فونز کے ذریعے بنائی تھیں۔ جن میں اہلکاروں کی جانب سے بچے کو گود میں اٹھائے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک ویڈیو میں بچے کو اس کے اہل خانہ کے پاس لے جاتے ہوئے اہل کار اس سے باتیں کر رہے ہیں۔ اہلکار اسے چاکلیٹ دینے کی بات کر رہے ہیں تاکہ وہ رونا بند کر دے۔
تاہم ان ویڈیوز پر بھی سوشل میڈیا صارفین سیکیورٹی اہلکاروں کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اخبار 'کشمیر ریڈر' نے ہلاک ہونے والے بشیر احمد خان کی بیٹی اور دیگر اہل خانہ کے بیان کو صفحہ اول پر الگ سے شائع کیا۔ جس میں ان کی بیٹی ارم جان کا کہنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ میرے والد کو مارنے والے کو بھی اسی طرح گولیاں ماریں جائیں۔
رپورٹ کے مطابق ارم جان نے مزید کہا کہ میرے والد کو مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ یہ جبر کی ہی ایک قسم ہے۔ مجھے انصاف چاہیے۔
بشیر احمد خان کے بھتیجے اعجاز خان نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے میرے چچا کے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہونے کی بات میں صداقت نہیں ہے کیوں کہ شواہد اس کے برخلاف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ان کی گاڑی کا معائنہ کیا ہے جس پر گولیوں کے نشان نہیں ہیں۔ انہیں گاڑی سے نکال کر گولیاں ماری گئی ہیں۔
اسی طرح جموں سے شائع ہونے والے ایک اور انگریزی اخبار 'ارلی ٹائمز' نے واقعے کی خبر صفحہ تین پر لگائی۔
'ارلی ٹائمز' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہونے والے بشیر احمد خان کے نواسے کو سیکیورٹی اہلکاروں نے بچایا۔
کشمیر کے آئی جی پولیس کے حوالے سے بتایا گیا کہ مسجد سے جن دو دہشت گردوں نے سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا تھا ان کی شناخت ہو گئی ہے۔
سیکیورٹی اداروں نے دونوں مبینہ حملہ آوروں کا تعلق لشکرِ طیبہ سے بتایا ہے جب کہ ان کے نام عادل اور عثمان ہیں۔
پولیس نے عثمان کو غیر ملکی در انداز بتایا ہے۔
کشمیر میں 65 سالہ شخص کی ہلاکت اور اس کے بعد ان کے نواسے کی ان کے سینے پر بیٹھے ہونے کی تصویر نہ صرف سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی بلکہ اس پر تبصرے بھی جا رہی ہیں۔
بھارتی اداکار سوارا بھاسکر نے رونے کی ایموجی استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ چھوٹے بچے اور اس کے نانا کی لاش کی تصویر۔
پاکستانی اداکارہ مہوش حیات نے بھی اس حوالے سے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی فورسز کی جارحیت پر دنیا کیسے خاموش رہ سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب اس کو رک جانا چاہیے کیوں کہ کشمیریوں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے۔
اسی طرح قانون کے پروفیسر خالد بیضون نے سیکیورٹی اہلکاروں کی ویڈیو کو شیئر کرنا پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔
پاکستان کے سینٹرل فلم سینسر بورڈ کے چیئرمین دانیال گیلانی نے بھی ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی ہے جس میں اقوامِ متحدہ کے ماتحت فورم کے اجلاس کے درمیان بچے اور اس کے نانا کی تصویر کو فوٹو شاپ کرکے لگایا گیا ہے۔
دانیال گیلانی نے کہا ہے کہ یہ ایک فن کار کا تخیل ہے جو اس سانحے کے حوالے سے کئی سوالات کی جانب اشارہ ہے۔
بھارت کے مرکزی وزیرڈاکٹر جتندر سنگھ نے بھی بچے کی وہ ویڈیو شیئر کی ہے جو سیکیورٹی اہلکاروں نے بنائی ہے۔
جتندر سنگھ نے کہاہے کہ یہ دل توڑنے والا واقعہ تھا۔ ایک بزرگ شخص دہشت گردوں کی فائرنگ سے اس وقت ہلاک ہوا جب وہ اپنے نواسے کے لیے دودھ لینے جا رہا تھا جب کہ بچے کو سیکیورٹی فورسز نے بچایا۔
اسی طرح محمد حسیب الرحمٰن نامی ایک صارف نے بھی ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں بشیر احمد خان کا نواسہ گھر میں موجود ہے اور کوئی اس سے پوچھ رہا ہے کہ ان کے نانا کو کس نے گولی ماری۔ جواب میں بچہ کہتا ہے کہ پولیس والوں نے گولی ماری۔
بچے کی ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہے جس میں وہ نانا کی پولیس کہ فائرنگ سے ہلاکت کا بتا رہا ہے۔
زاہد میر نامی سوشل میڈیا صارف نے امریکہ میں پولیس کی تحویل میں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ اور کشمیر میں بشیر احمد خان کی ہلاکت کا موازنہ کیا۔
بنگلہ دیش کے ایک ٹوئٹر صارف ثاقب الحق نے واقعے کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ بھارت کے یونی فارم میں ملبوس دہشت گردوں نے ایک عام کشمیر کو قتل کیا اور پھر اس کی لاش پر کھڑے ہو گئے۔ اور پھر ان سی آر پی ایف اہلکاروں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس شخص کے نواسے کی جان بچائی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان نے بھی بچے اور اس کے نانا کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کے غم اور بے بسی کی اس تصویر کے ساتھ لکھنے کے لیے الفاظ کی تلاش ہے۔