رسائی کے لنکس

سعودی عرب کا ابہا ایئرپورٹ حوثی باغیوں کا بار بار نشانہ کیوں بنتا ہے؟


یمن میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے خلاف برسرِ پیکار ایران نواز حوثی باغیوں نے جمعرات کو ایک بار پھر سعودی عرب کے ابہا ایئر پورٹ کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ ایئرپورٹ عملے سمیت 12 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب حوثی باغیوں نے اس ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا ہو۔ 2019 سے اب تک حوثی باغیوں کی جانب سے لگ بھگ ایک درجن بار ابہا ایئرپورٹ کو کبھی میزائلوں اور کبھی ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

سعودی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایئر ڈیفنس نے جمعرات کو ابہا ایئرپورٹ کی طرف بڑھنے والے میزائل کو ہدف تک پہنچنے سے قبل ہی فضا میں ناکارہ بنا دیا تھا، لیکن زمین پر گرنے والے اس کے کچھ ٹکڑوں سے ایئرپورٹ کو نقصان پہنچا اور مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسافروں سمیت 12 افراد زخمی ہوئے۔

سعودی حکام کا کہنا ہے کہ حفاظتی اقدامات کے بعد ایئرپورٹ پر فلائٹ آپریشن دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔

ابہا ایئرپورٹ پر حملے کے بعد سعودی اتحاد نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں شہریوں کو وارننگ دی کہ وہ آئندہ 72 گھنٹوں کے دوران ایسے عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں جسے حوثی باغی فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

عرب نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کے مطابق حوثی باغیوں کے ترجمان یحیی ساری نے ڈرون حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ابہا ایئرپورٹ پر فوجی اہداف کو 'قصف 2' نامی ڈرون سے نشانہ بنایا گیا۔

الجزیرہ کے مطابق زخمی ہونے والےافراد میں دو سعودی شہریوں کے علاوہ نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے شہری بھی شامل ہیں۔

حوثی باغی ابہا ایئرپورٹ کو بار بار نشانہ کیوں بناتے ہیں؟

سعودی عرب کے جنوبی صوبے عسیر کے شہر ابہا کا یہ ہوائی اڈہ یمن کی سرحد کے قریب ہونے کے باعث یمن تنازع میں بار بار خبروں میں آتا رہا ہے۔

حوثی باغیوں یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ابہا ایئرپورٹ سے سعودی اتحاد کے ڈرون طیارے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہیں جس سے سول آبادی کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

جمعرات کو بھی حوثی باغیوں کے ترجمان یحیی ساری نے یہ الزام دہراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایئرپورٹ یمن کے خلاف استعمال ہوتا ہے، لہذٰا اسے نشانہ بنایا گیا۔

سعودی عرب کا جنوبی صوبہ عسیر بلندو بالا چٹانوں اور خوش گوار موسم کی وجہ سے سیاحوں کے لیے پرکشش سمجھا جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے ویژن 2030 تک صوبے میں 50 ارب ریال کی لاگت سے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

عسیر کا شہر ابہا یمن بارڈر سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جب کہ یمن کے دارالحکومت صنعا سے یہ شہر لگ بھگ 430 کلو میٹر کی دُوری پر ہے۔

ماہرین کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں کے پاس موجود ڈرون جو کم فاصلے تک مار کر سکتے ہیں، اُنہیں اسی لیے ابہا ایئرپورٹ پر حملوں کے لیے بار بار حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سن 2015 سے ہی یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں اور سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں حالیہ عرصے میں مزید تیزی آئی ہے۔

حوثی باغیوں کے حملوں میں ایئرپورٹ کی عمارت کو نقصان پہنچتا رہا ہے۔
حوثی باغیوں کے حملوں میں ایئرپورٹ کی عمارت کو نقصان پہنچتا رہا ہے۔

'الجزیرہ 'کے مطابق حوثی باغیوں نے جون 2019 میں دو مرتبہ ( 12 اور 23 جون) کو ابہا ایئرپورٹ پر میزائل داغے جن میں ایک شامی شہری ہلاک جب کہ درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے۔

اسی طرح 2020 اور 2021 میں ابہا ایئرپورٹ پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے جواب میں سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کے اندر حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری بھی کی جاتی رہی۔

ابہا ایئرپورٹ سے خطے کے مختلف ممالک بشمول قطر، مصر اور متحدہ عرب امارات کے لیے پروازیں آپریٹ کی جاتی ہیں۔

ابھا ایئرپورٹ کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک کے لیے پروازیں آپریٹ ہوتی ہیں۔
ابھا ایئرپورٹ کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک کے لیے پروازیں آپریٹ ہوتی ہیں۔

امریکہ اور پاکستان کی مذمت

امریکی اور پاکستانی حکام نے ابہا ایئرپورٹ پر حوثی باغیوں کے حملوں کی مذمت کی ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتحار نے جمعرات کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان سعودی عرب کی سالمیت اور اس کے استحکام کے لیے اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گا۔

ادھر امریکی صدر جو بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے بھی ابہا ایئرپورٹ حملے کی مذمت کی ہے۔

جمعرات کو جاری کیے گئے ایک بیان میں جیک سلیوان کا کہنا تھا کہ امریکہ سعودی عرب کے دفاع اور اس کے عوام کی سالمیت کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہے۔

خیال رہے کہ یمن کے حوثی باغی جو پہلے سعودی عرب میں ہی حملے کرتے تھے اب حالیہ عرصے میں اُنہوں نے ان حملوں کا دائرہ کار سعودی عرب کے اتحادی ملک متحدہ عرب امارات تک پھیلا دیا ہے۔

سترہ جنوری کو ابوظہبی میں بندرگاہ کے قریبی علاقے مصفح میں آئل ٹینکروں میں ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں ایک پاکستانی سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

یمن میں 2015 سے سعودی اتحاد اور حوثی باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
یمن میں 2015 سے سعودی اتحاد اور حوثی باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

بعدازاں 24 جنوری کو حوثی باغیوں نے ابوظہبی کی الظفرہ ایئر بیس پر میزائل داغے تھے جہاں امریکی فوجی بھی موجود ہیں۔ البتہ ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ مذکورہ فوجی اڈے پر لگ بھگ دو ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔

خیال رہے کہ یمن میں 2015 سے ہی خانہ جنگ جاری ہے۔ 2014 کے آخر میں ایران نواز حوثی باغیوں نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کا تختہ اُلٹ کر دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں اس کے علاقائی اتحادیوں نے یمن میں فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔

عالمی اداروں کے مطابق اب تک اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں عام شہری بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں فریقین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بھی الزامات عائد کرتی رہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ سمیت کئی عالمی ادارے یمن میں جاری جنگ کے باعث انسانی المیے کے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG