کراچی میں 10 سال قبل قتل ہونے والے صحافی ولی خان بابر قتل کیس میں ملوث تمام چھ ملزمان کی بریت کے فیصلے پر اہلِ خانہ نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس ملک میں مافیا کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ولی خان بابر کے بھائی مرتضیٰ بابر نے فیصلے پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں انصاف کا حصول ایک مشکل امر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کو ناکافی ثبوتوں اور غلط تفتیش کا فائدہ ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے بھائی کے قاتلوں کو سزا دلانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن مرتضٰی بابر کے مطابق ان کے بھائی کو قتل کرنے والا مافیا انتہائی طاقت ور نکلا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ بابر کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ شہر میں مافیا اس قدر مضبوط تھا کہ ان کے ڈر سے ججز یہ کیس سننے کو تیار نہیں تھے۔
اُن کے بقول اس دوران چار ججز تبدیل کیے گئے جب کہ کیس کراچی سے کندھ کوٹ منتقل کیا گیا۔ وکیل پیسے لے کر بھی کیس میں ہماری وکالت کو تیار نہیں تھے تو ایسے میں گواہ کہاں سے عدالت کا رخ کرتے۔
مرتضٰی بابر کے مطابق اس کیس سے منسلک دو وکلا کو دھمکیوں کے باعث ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ تیسرے وکیل نعمت رندھاوا کو بھی قتل کر دیا گیا جب کہ کیس کے گواہوں اور پولیس افسران کو بھی یکے بعد دیگرے قتل کر دیا گیا۔
مرتضیٰ بابر کا کہنا ہے کہ وہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے اپنے وکلا سے مشورہ کریں گے۔ لیکن انہوں نے پراسیکیوشن، پولیس اور عدالتی نظام پر شدید عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس سے کوئی زیادہ اُمید نظر نہیں آتی۔
کیس کا پس منظر
سندھ ہائی کورٹ نے جمعے کو صحافی ولی بابر قتل کیس میں ملزمان کی اپیلوں پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کیس میں گرفتار تمام ملزمان کو عدم شواہد کی بنا پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ پولیس دورانِ تفتیش واردات میں استعمال ہونے والا اسلحہ اب تک برآمد نہیں کر سکی جب کہ ملزم کے اعترافی بیان اور واردات میں بھی مماثلت نہیں پائی گئی۔
جیو نیوز سے وابستہ صحافی ولی خان بابر کو جنوری 2011 میں نامعلوم افراد نے کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں قتل کر دیا تھا۔
قتل کیس میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دو ملزمان فیصل محمود عرف موٹا اور ایس ایم کامران عرف ذیشان کو عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی تھی۔ اسی کیس میں شاہ رُخ فیصل عرف نفسیاتی، سید طاہر نوید شاہ اور سید محمد علی رضوی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
ان ملزمان کے خلاف کندھ کوٹ کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 2014 میں سزا سنائی تھی۔
ملزمان کی اپیل پر 23 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں عدالت نے کیس میں پولیس کی ناقص تفتیش کا فائدہ ملزمان کو دیا ہے۔ تحریری فیصلے میں جہاں ملزمان کی شناخت پریڈ میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے اب تک واردات میں استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح ملزم شاہ رخ کا کوئی کال ڈیٹا ریکارڈ پیش نہیں کیا جا سکا جب کہ سرکاری وکلا کی جانب سے قتل کی اصل وجوہات کا بھی تعین نہیں کیا جا سکا۔
عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیس کے واقعاتی یا دوسرے شواہد کسی طرح اپیل کنندہ کو جرم سے منسلک کرتے نظر نہیں آتے۔ اس طرح عدالت کا کہنا ہے کہ سرکاری وکلا کی جانب سے کیس کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔ عدالت نے قراردیا کہ ایسے کیسز میں شک کا فائدہ ملزمان کو دیا جاتا ہے۔
اسی طرح پولیس کی جانب سے کیس کے عینی گواہ حیدر علی کا بیان واقعے کے چھ ہفتے بعد ریکارڈ کرنا بھی پراسیکیوشن کو کیس ثابت کرنے میں بڑی خامی قرار دیا گیا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ملزمان کا ڈی این اے لیا گیا نہ ہی فنگر پرنٹس ثابت ہوتے ہیں صرف یہ کہہ دینا کہ واردات کے بعد اسلحہ چھپا دیا گیا تھا کیس کو ثابت نہیں کرتا۔ تفتیشی افسر نے واردات میں استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد بھی نہیں کرایا۔
ناقص تفتیش پر پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
ادھر صحافیوں نے استغاثہ کی غلطیوں کی وجہ سے ولی بابر قتل کیس کے گرفتار ملزمان کی بریت کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ کراچی یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی نے اپنے ایک بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فیصلے کی روشنی میں ولی بابر قتل کیس کی تفتیش سے وابستہ تمام پولیس افسران کے خلاف نہ صرف محکمہ جاتی کارروائی کی جائے بلکہ ان کے خلاف ملزمان کو فائدہ دینے کے جرم میں فوجداری نوعیت کے مقدمات بھی درج کیے جائیں۔
کے یو جے نے سندھ حکومت سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صحافی ڈینئل پرل قتل کیس کے بعد ولی بابر قتل کیس ملکی تاریخ کا دوسرا کیس تھا جس میں ملزمان کو ماتحت عدالتوں سے سزا ہوئی لیکن پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے دونوں ہی کیس کے ملزمان کو اعلٰی عدالتوں سے بری کردیا گیا۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ کون نہیں جانتا کہ ولی بابر کو کس نے اور کیوں قتل کرایا۔ لیکن پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے ولی بابر کے اہلِ خانہ سمیت ملک بھر کی صحافی برادری ایک بار پھر انصاف سے محروم رہی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلہ سندھ پولیس کے ناقص تفتیشی نظام کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ لہذٰا سندھ حکومت اس کیس سے جڑے تمام پولیس افسران کے خلاف فوری کارروائی کرے۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' کے مطابق پاکستان میں 1993 سے 2020 تک 61 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ 2019 کی رپورٹ کے مطابق مقتول صحافیوں کے قاتلوں کو سزائیں نہ ملنے کی فہرست (گلونل امپیونٹی انڈیکس) میں پاکستان کا آٹھواں نمبر تھا۔