انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں تاریخی شکست کے بعد پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم جہاں شدید تنقید کی زد میں تھے وہیں بعض کرکٹرز کے بابر کے حق میں بیانات نے نئے تنازع کو جنم دیا ہے۔
سترہ برس بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلش ٹیم نے پاکستان کو تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں منگل کو وائٹ واش کیا تھا۔ سیریز کے دوران ہی بابر کی کپتانی اور فیصلہ سازی پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے تھے۔
اپنی سرزمین پر 70 سال بعد ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش ہونے پر بعض ناراض شائقین کی جانب سے بابر کو کپتانی سے ہٹانے کے مطالبات بھی سامنے آئے۔ ایسے میں فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کپتان کے حق میں سامنے آئے اور انہوں نے ٹوئٹر پر بابر اعظم کی کھل کر حمایت کی۔
شاہین آفریدی نے لکھا کہ "بابر اعظم پاکستان کی شان، جان اور پہنچان ہیں۔ وہ ہمارے کپتان ہیں اور رہیں گے، کچھ اور سوچنا بھی نہیں۔"
شاہین نے ہیش ٹیگ 'سوچنا بھی نہیں' کا استعمال کیا جو پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے اور بابر کے مداح اس ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے ان کے حق میں بیانات دے رہے ہیں جب کہ ناقدین کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کو تنقید پر اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے ٹیم میں گروپنگ کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔
حارث رؤف نے بھی بابر کی حمایت میں کہا کہ آپ ہمارے لیڈر ہو اور رہو گے ہمیشہ۔
کھلاڑیوں کے مذکورہ بیانات کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا کھلاڑیوں کو اس طرح کے بیانات دینا چاہئیں جب کہ بعض کا خیال ہے جن حالات میں بابر نے ٹیم کی قیادت کی ہے وہ ایک مشکل وقت تھا کیوں کہ کئی کھلاڑی انجرڈ تھے اور انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی ٹیم جونیئر کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔
حسنین سبحانی نامی ٹوئٹر صارف نے شاہین اور حارث کی ٹوئٹ پر تبصرہ کیا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے کھلاڑی ہیں جو سرِعام سوشل میڈیا پر گروپنگ اور کمپئن کر رہے ہیں۔ کیا اب کھلاڑی فیصلہ کریں گے کہ کپتان کون ہو گا اور کون نہیں۔
عرفان الحق نامی ٹوئٹر صارف نے سوال کیا کہ کرکٹ ٹیم میں مزدور یونین میں موجود ہے؟ کپتان کا فیصلہ کرنے والے شاہین شاہ آفریدی کون ہوتے ہیں؟
ایک ٹوئٹر صارف نے کھلاڑیوں کے بابر اعظم کے حق میں بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ "گھر کے اندر نئی ڈرامے بازی"، اور اس کے ساتھ انہوں نے ہیش ٹیگ سوچنا بھی نئی کا استعمال کیا۔
ایک ٹوئٹر صارف نے تبصرہ کیا کہ 70 سال میں پہلی مرتبہ اپنے ہوم گراؤنڈ پر شکست کھانے والے کپتان کو ہٹانے کے لیے پنجاب اسمبلی کب قرارداد پیش کر رہی ہے؟
باسط خان نے سوال کیا کہ کیا کھلاڑیوں کی حمایت کرنے یا مخالفت کرنے سے متعلق کرکٹ بورڈ کی کوئی پالیسی نہیں ہے؟
شاہین اور حارث کی طرف سے بابر اعظم کی حمایت کرنے پر جہاں بعض ٹوئٹر صارفین نے غصے کا اظہار کیا وہیں بعض بابر کی سپورٹ میں آئے اور انہیں موجودہ ٹیم کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
عثمانی ستی نامی صارف نے لکھا کہ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں بابر کی کپتانی متاثر کن نہیں تھی، وہ جلد فیصلے نہیں کر سکے اور جارحانہ انداز بھی نظر نہیں آیا لیکن ان کے پاس کیا وسائل تھے؟
عثمان نے کہا کہ بابر کی ٹیم میں کئی کھلاڑی اپنا ڈیبیو میچ کھیل رہے تھے اور صرف ایک سینئر کھلاڑی موجود تھا جس کی فارم بھی خراب تھی۔ کیا اس طرح کی صورتِ حال میں آپ کپتان اور ٹیم کی حوصلہ افزائی کریں گے یا ٹرولنگ کریں گے۔
دانش نامی ٹوئٹر صارف نے کہا کہ یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ پاکستان ٹیم بابر کی قیادت کے بغیر کوئی بھی فارمیٹ کھیل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بابر نے اپنی کپتانی میں غلطیاں کی ہیں لیکن اس عمر میں کوئی بھی کپتان اتنی کامیابیاں نہیں سمیٹ سکتا۔
واضح رہے کہ انگلینڈ نے پاکستان کو راولپنڈی کے بعد ملتان اور پھر کراچی میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں بھی شکست دی تھی۔ یہ پہلا موقع تھاکہ انگلش ٹیم نے پاکستان کی سرزمین پر میزبان ٹیم کو کلین سوئپ کیا اور وہ ایسا کرنے والی پہلی ٹیم بھی بن گئی ہے۔
پاکستان کو اپنے ہوم گراؤنڈ پر 70 برس بعد کسی ٹیم نے ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کیا ہے۔
پاکستان کو یہ شکست ایسے موقع پر ہوئی ہے جب ٹیم میں فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ انجری کے باعث ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے۔