رسائی کے لنکس

خیبرپختونخوا کے سینئر سرکاری ڈاکٹرز ملازمتیں کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹشز (ایم ٹی آئی) ایکٹ کے نفاذ کے خلاف ڈاکٹروں کا احتجاج جاری ہے۔ کئی سینئرز ڈاکٹروں نے ملازمتیں چھوڑنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

مذکورہ ایکٹ کے تحت حکومت میڈیکل کالجز سے منسلک بڑے اسپتالوں کو نجی شراکت داروں کے ساتھ مل کر چلانا چاہتی ہے جس پر سرکاری ڈاکٹروں کو اعتراض ہے۔

البتہ صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ عوام کو صحت کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کے لیے نظامِ صحت میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت نے 2015 میں منظور کیے جانے جانے والے ایک قانون کے تحت صوبے کے بڑے اسپتالوں کو خود مختاری دے دی تھی۔ ابتدائی طور پر پشاور لیڈی ریڈنگ، خیبر ٹیچنگ اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے علاوہ ایبٹ آباد کے ایوب ٹیچنگ اسپتال کو خود مختاری دی گئی تھی۔

لیکن اب حکومت نے صوبے کے مزید 12 اسپتالوں کو نجی شعبے کے تعاون سے چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیبر ٹیچنگ اسپتال کے ڈاکٹروں کی تنظیم کے صدر ڈاکٹر ایاز عارف نے پشاور میں ایک حالیہ نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ڈاکٹروں کی اکثریت محکمۂ صحت کی جانب سے سرکاری اسپتالوں کو نجی شعبوں کے تعاون سے چلانے کے فیصلے پر تشویش میں مبتلا ہے۔ لہذٰا حکومت کو اسپتالوں کی نج کاری کا عمل فوری طور پر روک دینا چاہیے۔

'سو ڈاکٹرز مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں'

ڈاکٹر ایاز نے دعویٰ کیا کہ حکومتی فیصلے کی وجہ سے خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کے چار بڑے اسپتالوں میں کام کرنے والے 100 ڈاکٹر نوکریاں چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

اُن کے بقول حکومت کی مذکورہ پالیسی کی وجہ سے پہلے بھی کئی ڈاکٹروں نے نوکریاں چھوڑ دی تھیں جس کے بعد پشاور کے دو بڑے اسپتالوں کی حالتِ زار بہت خراب ہے۔

ڈاکٹروں کی ایک اور تنظیم کے عہدے دار ڈاکٹر ابراہیم نے بھی خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس سے ڈاکٹروں کے جائز حقوق متاثر ہوں گے۔

ایک اور ڈاکٹر حامد بنگش نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں دعویٰ کیا کہ
رواں برس صوبے کے سب سے بڑے اسپتال لیڈی ریڈنگ پشاور سے 33 ڈاکٹر مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان کے بقول 2018 سے اب تک 56 سینئر ڈاکٹروں نے سرکاری ملازمت چھوڑی ہے۔

صوبائی حکومت کیا کہتی ہے؟

خیبر پختونخوا کی حکومت میں شامل عہدیدار اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما محکمہ صحت میں نافذ کردہ نئے نظام کا دفاع کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے یہ فیصلہ مفادِ عامہ میں کیا گیا تاکہ عوام الناس کو صحت کی بہترین سہولتیں میسر آسکیں۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے جن اسپتالوں کو خودمختاری دی ہے ان کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے بورڈ آف گورنرز قائم کیے گئے ہیں اور ان میں نجی شعبے کے افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ صحت تیمور سلیم جھگڑا نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران ڈاکٹروں کی تنظیم کے اعتراضات کو رد کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ محکمۂ صحت نے دور افتادہ علاقوں میں واقع صحت کے 10 مراکز پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت نجی ادارے کے حوالے کیے ہیں۔

خیبر پختونخوا: امراضِ قلب کے مریض علاج کی تلاش میں
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:03 0:00

تیمو سلیم جھگڑا نے دعویٰ کیا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا مطلب اسپتالوں کی ہر گز نجکاری نہیں۔ اس اقدام کا مقصد صوبے کے دور افتادہ علاقوں میں واقع اسپتالوں میں صحت کی سہولتیں بہتر بنانا ہے۔

صوبائی وزیرِ صحت نے دعویٰ کیا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت 385 ماہر ڈاکٹر دُور افتادہ علاقوں میں تعینات کیے گئے ہیں۔ جہاں مریضوں کو صرف 10 روپے کی پرچی کے عوض علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نظام کو عوامی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے وسعت دیتے ہوئے قبائلی اضلاع کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

مستعفی ہونے والے ڈاکٹرز کا مؤقف

پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال سے مستعفی ہونے والے ایک سینئر ڈاکٹر غریب نواز نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ کوئی بھی ڈاکٹر محکمۂ صحت میں اصلاحات یا اسپتالوں کی خود مختاری کے خلاف نہیں لیکن خود مختاری کے نام پر مرکزیت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹشز (ایم ٹی آئی) ایکٹ کے ذریعے پرائیویٹ لوگوں پر مشتمل بورڈ آف گورنرز قائم کیا جا رہا ہے جو اپنے مفادات میں فیصلے کر سکتے ہیں۔

اُنہوں نے تجویز دی کہ ان بورڈ آف گورنرز میں محکمۂ صحت یا سرکاری عہدیداروں کو شامل کرنا چاہیے تا کہ بورڈ آف گورنرز محکمۂ صحت میں فرائض سرانجام دینے والے تمام طبقات کے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے۔

ڈاکٹر غریب نواز کے بقول ڈاکٹروں، نرسز، پیرا میڈیکس اور طبی عملے میں شامل افراد نے اپنی زندگی کا قیمتی وقت اس شعبے کو دیا ہے اس لیے ان کے مفادات کو بھی ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔

سماجی کارکن منظور آفریدی نے محکمۂ صحت سے منسلک ڈاکٹروں میں پائے جانے والی بے چینی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف سے عوام نےبہت سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں جو اب دم توڑتی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کے بعض اسپتالوں میں کام کرنے والے سینئر ڈاکٹروں کے مستعفی ہونے کی وجہ سے ان کے بقول اسپتالوں کا نظام متاثر ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG