"بابو جی ان دنوں تو ہمیں سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی مگر آج کل ہمارے کاروبار میں وہ تیزی نہیں ہے جو پچھلے الیکشنز میں ہوا کرتی تھی۔ پتا نہیں کیا وجہ ہے کہ اُمیدوار پرنٹنگ کا کام کم کرا رہے ہیں۔ ہماری تو سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔"
یہ الفاظ ہیں 50 سالہ سید حسنین حیدر کے جو گزشتہ 20 برسوں سے لاہور کے علاقے رائل پارک میں پرنٹنگ پریس کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
اُن کے مطابق ملک میں انتخابات کی واضح تاریخ کے اعلان کے باوجود اُن کے کاروبار میں تیزی نہیں آئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب الیکشن کا اعلان ہوا تو اُنہوں نے کام کی غرض سے چند اضافی لڑکوں کو رکھا مگر مندا ہونے کی وجہ سے اُنہیں پچھلے ہفتے فارغ کرنا پڑا کیوں کہ خرچے پورے نہیں رہے۔
مشتاق احمد بھی رائل پارک میں فلیکس بنانے کے کام سے وابستہ ہیں۔ اُن کے بقول وہ اور اُن کے والد اِس کاروبار سے گزشتہ 35 برسوں سے وابستہ ہیں۔ لیکن جو مندا اِس بار دیکھنے میں آ رہا ہے پہلے کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سمجھ سے باہر ہے کہ لوگ اپنے بینرز اور پوسٹرز کیوں نہیں چھپوا رہے۔ ماضی میں تو یہ کام الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہی تین چار ماہ پہلے شروع ہو جاتا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ماضی کے انتخابات میں سیاسی امیدواروں کے ساتھ ساتھ اُن کے حمایتی بھی تشہیری مواد کے لیے رائل پارک کا رخ کرتے تھے مگر اس بار امیدوار تو دور کی بات اُن کے سپورٹرز بھی نہیں آ رہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ شاید جیتنے والے کو پتا ہے کہ وہ جیت جائے گا اور ہارنے والے کو علم ہے کہ وہ ہار جائے گا۔ لہذا سیاسی جماعتوں کے امیدوار بینرز اور پوسٹرز نہیں چھپوا رہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ تھوڑا بہت کام آ رہا ہے، جتنا کام آ جاتا ہے اتنا ہی وہ کر دیتے ہیں جس سے بس خرچے ہی پورے ہو رہے ہیں۔
واضح رہے لاہور کا رائل پارک صوبے بھر میں بینرز، پوسٹرز، فلیکسز اور دیگر تشہیری مواد کے لیے مشہور ہے۔ یہاں پر سینکڑوں چھوٹے بڑے پرنٹنگ پریس ہیں جو ہر قسم کی تقریبات اور مواقع سے متعلق تشہیری مواد بناتے ہیں۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات میں اب چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں، ملک کی سیاسی جماعتیں اپنی تشہری مہم کیسے چلا رہی ہیں؟
مبصرین سمجھتے ہیں کہ سست انتخابی مہم میں کئی عوامل شامل ہیں جن پر سیاسی قائدین آہستہ آہستہ قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں آئندہ ہفتے تیزی آنے کی توقع ہے۔
پاکستان میں پارلیمنٹ، انتخابی نظام کی مضبوطی اور مقامی حکومتوں کے حوالے سے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نمائندے رشید چوہدری کہتے ہیں کہ بطور آبزرور گروپ اُنہوں نے بھی اِس بات کا مشاہدہ کیا ہے۔
اُن کے بقول سرد موسم، سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے چناؤ میں تاخیر بھی تشہری مہم میں سست روی کی وجہ ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ انتخابات میں رواں ہفتے کے بعد دو ہفتے ہی رہ جائیں گے جس میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ انتخابی گہما گہمی بڑھے گی۔
سوشل میڈیا پر انحصار
اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی گہما گہمی کی تیسری وجہ سوشل میڈیا بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی انتخابی مہم سوشل میڈیا پر منتقل کر دی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر بات کی جائے پی ٹی آئی کی تو اُنہوں نے آئندہ اتوار سے اپنی انتخابی مہم شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مگر اِس سے قبل اُن کے حمایت یافتہ امیدواروں نے اپنی اپنی سطح پر انتخابی مہم شروع کر دی تھی۔
کالم نویس اور سیاسی مبصر ماجد نظامی کی رائے میں محدود انتخابی مہم کے دو پہلو ہیں جس کی پہلی وجہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو درپیش مشکلات ہیں۔ دوم پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم ڈیجیٹل میڈیا پر منتقل ہو چکی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر اِن دونوں پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی تشہیر اور انتخابی مہم کے لیے نیا انداز اپنایا ہے۔ جو خود پی ٹی آئی کے لیے بھی ایک امتحان ہو گا کہ وہ کیسے ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے اپنے ہر ووٹر تک پہنچتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جہاں تک بات ہے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی تو دونوں جماعتیں بالترتیب پنجاب اور سندھ میں مضبوط تصور کی جاتی ہیں۔
اُن کے بقول ایسے میں جب یکطرفہ مقابلے کی فضا بنی ہو تو پھر اس کا لامحالہ اثر اُمیدواروں کی تشہیری مہم پر بھی پڑتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کچھ ایسا ہی معاملہ پی ٹی آئی کے ساتھ لگ رہا ہے، چوں کہ وہ سیاسی اعتبار سے مشکل میں ہے۔ اِسی لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اپنی محدود انتخابی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فورم