تمام شرائط پوری کرنے کے حکومتی دعوؤں کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے بیل آؤٹ پیکج کی باضابطہ منظوری کاکوئی عندیہ نہیں دیا۔
پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے مذاکرات جاری ہیں۔ حال ہی میں آئی ایم ایف نے خطے کے دو دیگر ممالک بنگلہ دیش اور سری لنکا کے لیے پروگراموں کی منظوری کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام گزشتہ سال ستمبر میں معطل ہو گیا تھا جس کی وجہ پاکستان کی جانب سے اس پروگرام سے منسلک شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کو قرار دیا گیا۔
حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں۔
ماہرین تعجب کا اظہار کر رہے ہیں کہ تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود پاکستان کو قرض کی قسط ملنے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
حکومت کو ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے نتیجے میں عوامی ناراضگی اور مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا ہے جو کہ تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے۔
دوسری طرف ملک کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں بیرونی سرمایہ کاری کے ذرائع نہ کھلنے سے ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر گرتے جارہے ہیں اور اس وقت کم ترین سطح پر ہیں۔
حالیہ عرصے میں حکومتی رہنماؤں نے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے بعض بیانات دیے جن میں مالیاتی ادارے کو وضاحت جاری کرنا پڑی۔ ان میں کم آمدنی والے طبقے کو ایندھن پر سبسڈی فراہم کرنے کے فیصلے، انتخابی عمل کے حوالے سے فنڈز کی فراہمی کو آئی ایم ایف سے جوڑنا اور پروگرام کی بحالی کے لیے ایٹمی پروگرام سے متعلق شرائط کی قیاس آرائیاں شامل ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر کی ایک وجہ عالمی مالیاتی ادارے سے متعلق وزرا کے بیانات بھی ہوسکتے ہیں۔
تجزیہ نگار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام دو مراحل میں مکمل ہوتا ہے ایک اسٹاف لیول ایگریمنٹ اور دوسرا ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھ اکہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے قواعد و قوانین کتاب میں تحریر ہیں اور ان کے تجربے کے مطابق آئی ایم ایف ان قواعد کے مطابق ہی چلتا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ایگزیکٹو بورڈ میں سیاسی معاملات کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی اسٹاف لیول کی ابھی تک کی بات چیت میں نہ تو ایٹمی پروگرام کی بات کی گئی نہ ہی انتخابات کا ذکر آیا۔
فرخ سلیم کے بقول وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار عالمی مالیاتی اداروں کے دائرہ کار اور مزاج کو جانتے ہیں تو سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے ایٹمی پروگرام کی بات کو آئی ایم ایف کے ساتھ کیوں جوڑنے کی کوشش کی۔
'ایسی صورتِ حال میں وزرا کے بیانات نامناسب ہیں'
سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ حکومتی وزرا کے آئی ایم ایف سے متعلق بیانات ذمے دارانہ نہیں ہیں وہ بھی ایسے حالات میں جب ملک خراب معاشی صورتِ حال سے دوچار ہے اس قسم کے بیانات مناسب نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومتی ترجمان یہ بیانات خود سے بوجھ ہٹانے کے لیے دے رہے ہیں کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کی وجہ سے انہیں سیاسی نقصان ہورہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے اقتصادی امور حکومت کی توجہ نہیں رہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت اب آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں سنجیدہ نہیں رہی۔
فرخ سلیم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت قلیل وقتی سوچ کے تحت معاملات کو چلانا چاہتی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ جون تک آئی ایم ایف کے بغیر بھی مالی ضروریات پوری ہوجائیں گی۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ حکومت کو لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر بھی ان کی مالیاتی ضروریات پوری ہوجائیں گی لیکن یہ وقتی حکمتِ عملی ہے اور جون کے بعد بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا۔
سلمان شاہ کہتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ ایک سال سے مذاکرات چل رہے ہیں اور حکومت کو معلوم ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر کافی عمل درآمد کرلیا ہے لیکن جو چند اصولی اقدامات رہتے ہیں انہیں بھی مکمل کرنا ہوگا۔
سلمان شاہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف بھی پاکستان کے قرض پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے کام لے رہا ہے کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ حکومت تجویز کردہ اقدامات پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں ہے۔
ان کے بقول آئی ایم ایف ملک میں سیاسی استحکام چاہتا ہے کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا معاشی اصلاحات کا پروگرام کامیاب نہیں ہوگا۔