اپنے آپ کو دونوں طالبان کہتے ہیں۔ وہ باقاعدہ مہلک خودکش بم حملے کرتے ہیں، شہری آبادی کو ہلاک کرتے ہیں، پھر بھی وہ قابلِ گرفت نہیں بنتے۔ کئی اعتبار سے وہ اپنے آپ کو وحشی دہشت گرد گروپ خیال کرتے ہیں۔ اِس لیے، ایسا کیوں ہے کہ تحریک طالبان پاکستان امریکی محکمہٴ خارجہ کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے، جب کہ افغانستان کے طالبان اس کا حصہ نہیں ہیں؟
امریکہ کے لیے افغان طالبان زیادہ سے زیادہ ایک بغاوت ہے جو وسیع تر علاقے پر کنٹرول رکھتی ہے اور اُن میں ملک پر حاکمیت جمانے کے جذبات ہیں؛ جب کہ اس کی پاکستانی شاخ کو محض ایک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تاہم،افغان طالبان اِس فہرست میں شامل نہ ہونے کی اصل وجہ کے پیچھے سیاسی سوچ کا عمل دخل ہے، ناکہ دہشت گرد تنظیم ہونے کے قانونی تقاضے پورے کرنے کا سوال۔
محکمہٴ خارجہ کی جانب سے کسی کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے لازم ہے کہ کوئی غیر ملکی گروپ دہشت گردی میں ملوث ہو اور امریکی شہریوں کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہو یا پھر اُس سے امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو۔ افغان طالبان اِن دونوں شرائط پر پورے اترتے ہیں۔
اب تک سیاسی مصلحت اس کے حق میں ہے کہ اس گروپ کو 61 تنظیموں کی فہرست سے باہر رکھا جائے، جن میں داعش کے شدت پسند گروپ کی افغانستان شاخ سے لے کر حماس کا فلسطینی گروپ شامل ہیں۔ طالبان کے معاملے پر، ایک طویل عرصے سے حائل عنصر وہ تشویش ہے کہ گروپ کو دہشت گرد قرار دینے سے امریکہ اور افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ سفارتی روابط محدود ہوجائیں گے، جس بنا پر امن مذاکرات کے لیے مشکل ہو جائے گی۔
جیمز ڈوبنز افغانستان و پاکستان کے لیے امریکہ کے ایک سابق نمائندہٴ خصوصی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان اکثر و بیشتر شہریوں پر حادثاتی طور پر نہیں بلکہ ارادتاً حملے کرتے ہیں۔ اور یوں، دہشت گرد قرار دینا درست ہوگا۔ سوال یہ ہے آیا ایسا قدم اٹھانے سے امریکہ اور افغان حکومت کے مقاصد پورے ہوں گے‘‘۔
ایسے میں جب ٹرمپ انتظامیہ داعش کےدہشت گرد گروپوں کے ساتھ اپنی لڑائی میں تیزی لانا چاہتی ہے، جس نے کہا ہے کہ ’’دشمن کو اُس کا نام لے کر پکارا جائے‘‘؛ اب نئی افغان لڑائی کی حکمتِ عملی پر غور و خوض ہو رہا ہے۔
افغانستان میں چوٹی کے امریکی کمانڈر، جنرل جان نکلسن نے اس ماہ کے اوائل میں ’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کو بتایا کہ یہ سوال آیا طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے ’’اس پر غور کرنا (نئی) انتظامیہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے، اور آئندہ دِنوں کے دوران یہ اُن سے ہماری گفتگو کا ایک حصہ ہوگا‘‘۔
نکلسن نے یہ نہیں بتایا آیا وہ دہشت گرد قرار دینے کے حق میں ہیں۔ لیکن، اُنھوں نے اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ طالبان کو وہ کیا گردانتے ہیں، جب اُنھوں نے گروپ کو ’’دہشت گردوں کے سہولت کار‘‘ قرار دیا، جن کے
متعدد دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط ہیں، جن میں القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک شامل ہیں۔
اِس سے قبل، نکلسن نے امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کو بتایا کہ دنیا کے 98 میں سے 20 دہشت گرد گروپ جنھیں امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے، افغانستان اور پاکستان میں سرگرم ہیں، اور یہ کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ افغانستان میں ایک ’’پائیدار انسداد دہشت گردی کا ڈھانچہ‘‘ تشکیل دیا جائے۔
جب اُن سے پوچھا گیا آیا انتظامیہ طالبان کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کا سوچ رہے ہے، تو امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان نے سنہ 2002کے انتظامی حکم نامے کا حوالہ دیا جس میں طالبان کو ’’خصوصی طور عالمی دہشت گرد اکائی‘‘ قرار دیا گیا ہے؛ جب کہ2008ء کے کانگریس کے قانون کی رو سے امیگریشن کے مقاصد کے لیے طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔
ایسے میں جب عالمی دہشت گرد تنظیم کے خلاف عائد تعزیرات میں دھیان مالی لین پر مرتکز ہوتا ہے، غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے سے ’’مادی حمایت‘‘ کی فراہمی کی ممانعت ہو جاتی ہے؛ مثلاً تربیت، اور اِس کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ یہ بات اولیور کرشک نے بتائی ہے، جو خصوصی طور پر امریکی معاشی تعزیرات کے حوالے سے تجارتی قانون کے اٹارنی ہیں۔