پاکستان نے چین سے ملحقہ اپنے زیرِ انتظام علاقے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے لیے قانونی مسودہ تیار کر لیا ہے جسے رواں ماہ منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔
گلگت بلتستان کی اسمبلی نے مارچ میں ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی تھی جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس علاقے کو عبوری صوبے کا درجہ دینے کے لیے درکار قانون سازی کرے تاکہ پارلیمنٹ اور دیگر وفاقی اداروں میں بھی اس علاقے کو نمائندگی مل سکے۔
گلگت بلتستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں شروع ہی سے خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے لیے مہم چلا رہی تھیں۔
پاکستان کی حکومت مسئلہ کشمیر پر دیرینہ اور اُصولی مؤقف پر اثرات کے خدشے کے باعث گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ قرار دینے سے گریزاں رہی ہے۔
کشمیری قائدین بھی سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیے جب تک کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔
وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے منگل کو ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے لیے آرڈیننس وزیرِ اعظم کو بھجوا دیا گیا ہے۔
مجوزہ قانون کے تحت گلگت بلتستان کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے گی اور سپریم اپیلٹ کورٹ کو ختم کر کے اس علاقے کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرہ اختیار میں لایا جائے گا۔
اس سے قبل وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور کہہ چکے ہیں کہ حکومت گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صوبے کا درجہ دینے جا رہی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ برس نومبر میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ برس ستمبر میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ آئینی صوبہ بنانے کے لیے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان مشاورت بھی ہوئی تھی۔
صوبے کا درجہ اور کشمیر پر مؤقف ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں؟
بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ بھارت کے پانچ اگست 2019 کے اقدامات ایک اہم قانونی پیش رفت تھی جس کے ردِ عمل میں پاکستان نے بھی سوچا کہ کوئی قانونی نوعیت کا اقدام لیا جانا چاہیے تاکہ پاکستان کا کشمیر پر مؤقف بین الاقوامی سطح پر اُجاگر ہو۔
خیال رہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اس مرکز کا حصہ بنا لیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ مجوزہ آرڈیننس میں قانونی نکات کا بہتر استعمال کر کے پاکستان کشمیر پر اپنا دیرینہ مؤقف برقرار رکھ سکتا ہے۔ تاہم ان کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں تبدیلی پر بحث اور سیاسی اتفاق رائے کے تحت اقدامات کیے جائیں۔
احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ اگر مسئلہ کشمیر کو ایک طرف بھی رکھیں تو گلگت بلتستان پر پاکستان اپنی حاکمیت کا اختیار بلا روک ٹوک استعمال کرتا آیا ہے جس پر ماضی میں بھارت نے بھی کبھی اعتراض نہیں اٹھایا تھا ماسوائے حالیہ عرصے کے جب یہ علاقہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ بنا۔
احمر بلال صوفی نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اپنے فیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ حکومتِ پاکستان گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دے لہٰذا اس پس منظر میں بھی اس قسم کی قانون سازی کی گنجائش موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کشمیر کا تصفیہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں ہونا چاہیے اور اس دیرینہ مسئلے کے حل کا دوسرا راستہ شملہ معاہدہ ہے جس کے تحت پاکستان اور بھارت باہمی سطح پر مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل کر سکتے ہیں۔
'گلگت بلتستان کو وفاق میں نمائندگی نہیں دی جا سکتی'
بعض قانونی ماہرین گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت میں تبدیلی کے ممکنہ اقدام کو بھارت کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
سابق وزیرِ قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ بین الاقوامی قراردادوں کے تناظر میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ مؤقف اور بھارت کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد کے لیے گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینا مشکل ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ صوبے کا درجہ دینا پاکستان کے آئین میں بھی پیچیدہ عمل ہے جس کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے ذریعے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔
ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومت میں وہ گلگت بلتستان کو حقوق دینے کی قانون سازی کے عمل کے نگران تھے اور گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں صوبے کی عملی حیثیت اور اختیارات تفویض کر دیے گئے تھے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی مؤقف کی بنا پر گلگت بلتستان کو وفاق میں نمائندگی نہیں دی جا سکتی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے اختیارات اس علاقے میں لاگو کیے جا سکتے ہیں۔
سابق وزیرِ قانون کہتے ہیں کہ گزشتہ وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کمیٹی نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ گلگت بلتستان کو مکمل صوبے کا درجہ دینا اور وفاق میں اس کی نمائندگی ہماری عالمی پوزیشن کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔
وہ کہتے ہیں کہ "میرے خیال میں اگر ہم یہ کرتے ہیں تو اس کو بھارت کے پانچ اگست کے اقدام کی مثال کے طور پر دیکھا جائے گا۔"
ظفر اللہ خان نے کہا کہ اگر یہی کرنا تھا تو اس کی پیش کش بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے 1950 میں دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر سے منسلک ہے اور ایسے کسی اقدام سے نہ صرف کشمیری ناراض ہوں گے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہمارا مؤقف بھی کمزور ہو گا۔
پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان میں صوبائی نظام تو نافذ ہے اور یہاں کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ ہے۔ لیکن قانونی اعتبار سے اس علاقے کو پاکستان میں وہ آئینی حقوق حاصل نہیں جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔
پاکستان اسی لیے مقامی آبادی کے پُر زور مطالبے کے باوجود گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو بدلنے سے کتراتا رہا ہے کہ اس سے کشمیر پر اس کے مؤقف پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
تاریخی طور پر گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا جو 1948 میں مقامی لوگوں کی مدد سے پاکستان کے زیرِ انتظام آ گیا تھا۔
تقریباً 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور پھلوں سے لدے باغات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ لیکن اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔
گلگت بلتستان کو 1947 میں ایک انتظامی ڈویژن کی حیثیت حاصل تھی جس کے لیے مختلف ادوار میں بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات ہوتے رہتے تھے۔ تاہم 2009 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اس علاقے کو خود مختاری دی تھی۔ نومبر 2009 میں پہلی بار گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات ہوئے تھے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی۔
سال 2015 میں دوسرے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور نومبر 2020 میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔