پاکستان کی برآمد کا تقریباً 60 فی صد حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات پر مبنی ہوتا ہے اور اس سےحاصل ہونے والا زرِ مبادلہ پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں ٹیکسٹائل کے شعبے میں ایک بار پھر بڑی تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور پاکستانی کمپنیوں کو بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں دنیا بھر اور بالخصوص یورپ سے بڑے آرڈرز موصول ہوئے ہیں۔
بیرونِ ممالک سے آرڈرز ملنے کے بعد سرمایہ کار ایک بار پھر ٹیکسٹائل کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور وہ کئی مقامات پر اپنے پلانٹس کو وسعت دے رہے ہیں تاکہ پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جاسکے۔
زبیر موتی والا پاکستان کی ایک بڑی ٹیکسٹائل مل کے مالک ہیں ایک جانب وہ اس پر مطمئن ہیں کہ ان کی کمپنی کو یورپ اور دیگر مارکیٹس سے اچھے آرڈرز ملے ہیں لیکن ان آرڈرز کو جون 2021 تک پورا کرنا ان کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔
ان کے بقول بیرونِ ممالک سے ملنے والے آرڈر کو مقررہ وقت تک مکمل کرنے میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ خام مال کے نا ملنے کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات جیسا کہ بیڈ ویئرز، تولیے، بُنے ہوا لباس اور دیگر اشیا کے لیے دھاگے کی ضرورت ہوتی ہے جو کپاس سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر کپاس نہیں ملے گی تو وہ آرڈرز پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ ایکسپورٹ آرڈرز پورا نہ کرنے کا سب سے بڑا نقصان ان صرف انہیں یا ان جیسی دیگر کمپنیوں کو ہو گا بلکہ اس کا اثر پاکستان کی ٹیکسٹائل کمپنیوں پر خریداروں کے اعتماد میں کمی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
پاکستان میں کپاس کی پیداوار کتنی؟
پاکستان میں اس وقت 400 سے زائد ٹیکسٹائل انڈسٹریز کام کر رہی ہیں۔ اس صنعت کو ملک میں فروغ ملنے کی وجہ ہی یہ تھی کہ پاکستان میں اس سے متعلق استعمال ہونے والا خام مال یعنی کپاس، لینن، پٹ سن وغیرہ کی کثرت موجود تھی۔
لیکن گزشتہ ایک سال میں پاکستان میں کپاس کی پیداوار ایک کروڑ سات لاکھ گانٹھوں سے کم ہو کر 56 لاکھ رہ گئی ہے جو کہ حکومت کی جانب سے مقررہ پیداواری ہدف کا محض 52 فی صد بنتا ہے اور یہ پیداوار پاکستان کی 30 سالہ تاریخ میں کم ترین ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کپاس کی کم پیداوار کا اثر مجموعی زرعی ترقی کے ہدف پر پڑے گا اور پھر اس کے ملک کی مجموعی معاشی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
زبیر موتی والا کہتے ہیں ملک میں چند برس قبل جب 13 ملین کے قریب کاٹن بیلز پیدا ہوتی تھیں تو پاکستان ڈیڑھ سے دو ملین بیلز خام مال کی صورت میں برآمد کرتا تھا۔ لیکن اب ملک کی کُل پیداوار کم ہونے سے کم از کم 50 لاکھ بیلز (گانٹھیں) کی کمی پیدا ہوئی ہے۔
کپاس کی کم پیداوار کی وجہ کیا ہے؟
پاکستان کے صوبۂ پنجاب کا ضلع رحیم یار خان اپنے گرم اور مرطوب موسم کی وجہ سے کپاس کی کاشت کے لیے اہم علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ چند برس قبل تک یہاں تقریباً آٹھ لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت ہوتی تھی جو اب کم ہو کر پانچ لاکھ ایکڑ سے بھی کم رقبے تک محدود ہو گئی ہے۔
کپاس کی کاشت کے لیے موزوں علاقوں میں اب گنا بڑے پیمانے پر کاشت کیا جا رہا ہے۔
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق کا کہنا ہے کہ کپاس کے لیے موزوں زمینوں پر گنے کی کاشت کی سب سے بڑی وجہ کراپ زوننگ قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ساہیوال سے لے کر حیدرآباد تک کے علاقے کو کپاس کی کاشت کا علاقہ قرار دیا گیا تھا لیکن ان کے بقول شوگر کین لابی نے ان علاقوں میں اپنے فائدے کے لیے گنے کی کاشت کو پروان چڑھا دیا ہے۔
احسان الحق کے بقول کوٹ سبزل کے مقام پر نئی تین شوگر ملز لگ چکی ہیں جب کہ پنجاب اور سندھ کی کئی شوگر ملز کی استعدادکار کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گنے کی کاشت میں پانی کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح یا تو بلند ہو گئی ہے یا پھر زمین سیم کا شکار ہو گئی ہے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم کے مطابق بلوچستان کے بعض علاقوں میں جہاں حال ہی میں کپاس کی کاشت شروع کی گئی ہے وہ 300 سے 400 روپے ٹن مہنگی ہے کیوں کہ وہ زیادہ بہتر کوالٹی کی کپاس ہے۔
'کسانوں کا رجحان دیگر فصلوں کی جانب بڑھ گیا ہے'
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے صدر ڈاکٹر جسومل لیمانی کا کہنا ہے کہ گنے، چاول اور مکئی کے ایسے بیج مارکیٹ میں آچکے ہیں جس سے ان فصلوں کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس لیے کسانوں کا رجحان اس جانب ہوگیا ہے۔
ان کے بقول کپاس کی سیڈ ٹیکنالوجی پر پاکستان میں کوئی خاص کام نہیں ہوا۔ ٹیکنالوجی اور ریسرچ کے فقدان کی وجہ سے فصلوں کو کیڑوں سے بچانے پر بھی کوئی ریسرچ نہیں ہوئی۔ سکرنڈ سیڈ کارپوریشن، جس کا کام بیجوں پر کام کرنا تھا، تقریباً دس برس سے بند پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کپاس پر کوئی سبسڈی یا امدادی قیمت نہیں رکھی گئی۔ کپاس کے کاشت کاروں کو کم از کم 30 ہزار روپے فی ایکڑ کم آمدنی کی صورت میں نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ماہر اجناس شمس اسلام کا کہنا ہے کہ کپاس میں چوں کہ مشینی طور پر کٹائی نہیں ہوتی اس لیے اس میں زیادہ مزدور استعمال کر کے ہاتھوں سے اس کی چُنائی کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس گنے کی فصل اگانے میں کپاس سے کم مزدوروں کی ضرورت پڑتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مسئلے کا حل اسی میں ہے کہ کپاس کے لیے مختص علاقوں میں کپاس ہی کی کاشت کو ممکن بنایا جائے جب کہ اس کی چُنائی کے لئے مشینی انداز اپنایا جائے۔
کپاس اور یارن (دھاگہ) کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس وقت پاکستان خام مال ترکی، چین، افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک سے درآمد کر رہا ہے، جو مقامی طور پر پیدا ہونے والے خام مال سے 15 سے 20 فی صد مہنگا ہوتا ہے۔
بیرونِ ملک سے درآمد ہونے والے خام مال سے تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں پاکستان کی مصنوعات کی مسابقت کم ہو جاتی ہے۔
زبیر موتی والا کے خیال میں بھارت سے بھی کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی اجازت ہونی چاہیے کیوں کہ اس سے پیداواری لاگت میں کمی واقع ہو گی۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے روشن مستقبل کے لیے بھارت سے مصنوعات درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔