|
نئی دہلی_ بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی نے تمام تر قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے جمعے کو اترپردیش میں اپنے گڑھ رائے بریلی لوک سبھا حلقے کے لیے سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی کو اپنا امیدوار بنانے اعلان کیا۔
راہل گاندھی نے رائے بریلی کے حلقے کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کر دیے ہیں۔ اس حلقے کے لیے 20 مئی کو بھارتی انتخاب کے پانچویں مرحلے میں ووٹنگ ہوگی۔
اس کے ساتھ ہی کانگریس نے نہرو گاندھی خاندان کے دوسرے گڑھ اترپردیش کے امیٹھی حلقے سے خاندان کے قریبی کشوری لال شرما کو میدان میں اتار ہے۔ انھوں نے بھی جمعے کو اپنے کاغذات نامزدگی داخل کر دیے ہیں۔
رائے بریلی کانگریس کی سینئر رہنما اور سابق صدر سونیا گاندھی کا اور امیٹھی 2019 تک راہل گاندھی کا حلقہ رہا ہے۔ 2019 کے انتخابات میں راہل گاندھی نے کیرالہ کے وائناڈ سے بھی الیکشن لڑا تھا جہاں انھیں کامیابی ملی تھی۔ جب کہ امیٹھی میں انھیں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کی اسمرتی ایرانی سے شکست ہوئی تھی۔
اس بار سونیا گاندھی نے خرابیٔ صحت کی وجہ سے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ البتہ وہ راجستھان سے راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہو چکی ہیں۔ راہل گاندھی نے اس بار بھی وائناڈ سے الیکشن لڑا ہے جہاں 26 اپریل کو پولنگ ہو چکی ہے۔
ایسا سمجھاجا رہا تھا کہ راہل گاندھی امیٹھی سے بھی الیکشن لڑیں گے جہاں مبصرین کے مطابق عوام اسمرتی ایرانی سے ناراض ہیں۔ وہاں کانگریسی کارکنوں میں بہت جوش تھا اور وہ چاہتے تھے کہ راہل پھر وہاں سے الیکشن لڑیں۔
بعدازاں یہ اندازہ بھی ظاہر کیا جارہا تھا کہ راہل کی بہن پرینکا گاندھی رائے بریلی سے لڑیں گی۔ لیکن انھوں نے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا ہے۔
راہل گاندھی کے وائناڈ چلے جانے کی وجہ سے بی جے پی کی جانب سے ان پر شکست کے خوف سے امیٹھی سے راہ فرار اختیار کر لینے کا الزام عاید کیا جا رہا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی کی پوری کوشش تھی کہ راہل امیٹھی سے بھی لڑیں اور انھیں ایک بار پھر ہرا کر انھیں سیاسی طور پر نقصان پہنچایا جائے۔
راہل گاندھی کے رائے بریلی سے پرچہ داخل کرنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ان پر طنز کیا اور کہا کہ میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ’شہزادے‘وائناڈ میں شکست کے ڈر سے دوسری سیٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔ انھیں امیٹھی سے بھاگ کر رائے بریلی کا حلقہ منتخب کرنا پڑا۔ میں ان سے کہوں گا ’ڈرو مت بھاگو مت‘۔ بی جے پی کے دوسرے رہنما بھی ان پر طنز کر رہے ہیں۔
لیکن کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر راہل گاندھی کو رائے بریلی بھیجا گیا ہے۔ اس فیصلے نے بی جے پی کی حکمت عملی ناکام بنا دی ہے۔ بقول ان کے راہل سیاست اور شطرنج کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ پارٹی کے اس فیصلے نے بی جے پی، اس کے حامیوں اور ہمدردوں کو جھنجوڑ دیا ہے۔
کانگریس کے ترجمان میم افضل کا کہنا ہے کہ رائے بریلی اور امیٹھی نہرو گاندھی خاندان کی روایتی سیٹیں ہیں لہٰذا ان دونوں پر کانگریس کی جیت ہوگی۔ پارٹی کارکنوں کا مطالبہ تھا کے راہل گاندھی امیٹھی سے اور پرینکا گاندھی رائے بریلی سے لڑیں۔ لیکن جب پرینکا نے ملک بھر میں انتخابی مہم چلانے کی وجہ سے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا تو راہل گاندھی کو رائے بریلی سے امیدوار بنایا گیا۔
’راہل گاندھی جال میں پھنس گئے‘
اترپردیش کے مرادآباد کے رہائشی اور پرانے کانگریسی ممتاز الحق قریشی کا کہنا ہے کہ امیٹھی میں لوگ اسمرتی ایرانی سے ناراض ہیں اور چاہتے تھے کہ راہل گاندھی پھر وہاں سے الیکشن لڑیں۔ لیکن 2019 میں ہار جانے کی وجہ سے راہل کی دلچسپی امیٹھی سے ختم ہو گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ راہل گاندھی اگر امیٹھی سے لڑتے تو وہاں سے بھی شاندار ووٹوں سے کامیاب ہوتے اور اب رائے بریلی سے بھاری فرق سے جیتیں گے۔
واضح رہے کہ بی جے پی نے رائے بریلی میں دنیش پرتاپ سنگھ کو امیدوار بنایا ہے۔ بی جے پی نے 2019 میں انھیں سونیا گاندھی کے مقابلے میں امیدوار بنایا تھا اور وہ ہار گئے تھے۔
کانگریس کی سیاست کے ماہر اور اس پر کتاب کے مصنف، ’آبرزرور ریسرچ فاونڈیشن‘ (او آر ایف) کے سینئر فیلو رشید قدوائی کہتے ہیں کہ راہل گاندھی بی جے پی کے بچھائے جال میں پھنس گئے ہیں۔ اب بی جے پی ان کے خلاف مزید شدت سے بیانات دے گی اور انھیں رائے بریلی میں گھیرنے کی کوشش کرے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کانگریس پارٹی کے اندرونی سروے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ امیٹھی میں راہل گاندھی کی کامیابی کے 50 اور رائے بریلی میں 70 فیصد امکانات ہیں۔ اس لیے پارٹی نے انھیں رائے بریلی سے کھڑا کیا۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس لوک سبھا انتخاب میں صرف راہل گاندھی دو حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے بقول راہل نے رائے بریلی کو اپنے اوپر لاد لیا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ آئندہ ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کے دعوے دار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں میم افضل اور ممتاز الحق قریشی کا کہنا ہے کہ رائے بریلی نہرو گاندھی خاندان کے روایتی حلقے ہیں اور وہاں کے لوگ اب بھی اسی خاندان کے لوگوں کو اپنا نمائندہ بنانا چاہتے ہیں۔
لیکن رشید قدوائی کی رائے کچھ مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ وہ اس خاندان کے روایتی حلقے ہیں۔ لوگ یہ سب باتیں بھول جاتے ہیں۔ خود اندرا گاندھی 1977 میں رائے بریلی میں راج نرائن کے ہاتھوں ہار گئی تھیں۔ جب کہ راہل 2019 میں امیٹھی میں ہار گئے تھے۔
رائے بریلی و امیٹھی کی تاریخی حیثیت
واضح رہے کہ رائے بریلی 1952 سے کانگریس کا حلقہ رہا ہے۔ اندرا گاندھی کے شوہر فیروز گاندھی 1952 اور 1957 میں وہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے بعد وہاں سے اندرا گاندھی الیکشن لڑتی رہی ہیں۔ وہ 1967 سے 1977 تک وہاں سے مسلسل کامیاب ہوتی رہی ہیں۔
البتہ وہ 1977 میں ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی کے راج نرائن سے ہار گئی تھیں۔ لیکن 1980 میں پھر کامیاب ہوئیں۔ البتہ رائے بریلی 2004 سے سونیا گاندھی کا حلقہ ہوا کرتا تھا۔ درمیان میں نہرو گاندھی خاندان کے قریبی ارون نہرو اور شیلا کول نے بھی اس حلقے کی نمائندگی کی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پارٹی نے راہل گاندھی کے لیے امیٹھی کے مقابلے میں رائے بریلی کو زیادہ محفوظ سمجھا، اسی لیے انھیں وہاں سے کھڑا کیا ہے۔ 2919 میں رائے بریلی میں سونیا گاندھی کو مجموعی طور پر 55.8 فیصد ووٹ ملے تھے۔
اسی طرح امیٹھی بھی 1967 سے نہرو گاندھی خاندان کا روایتی حلقہ رہا ہے۔ اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی نے 1980 میں اس حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی۔ 1981 میں ایک ہوائی حادثے میں ان کی موت ہو گئی تھی۔
اس وقت اندرا گاندھی کے بڑے بیٹے راجیو گاندھی نے 1981 کے ضمنی انتخاب میں وہاں سے الیکشن لڑا اور وہ کامیاب ہوئے۔ وہ 1991 تک جب کہ ایک دہشت گرد حملے میں ہلاک ہوگئے تھے، ا س حلقے کے نمائندے رہے۔
ان کی موت کے بعد کانگریس کے سینئر رہنما ستیش شرما نے کامیابی حاصل کی۔ وہ 1996 میں دوسری بار کامیاب ہوئے۔ لیکن 1998 میں بی جے پی کے ہاتھوں ہار گئے۔ اس کے بعد وہاں سے سونیا گاندھی نے الیکن لڑا اور وہ کامیاب ہوئیں۔
بعد ازاں انھوں نے امیٹھی کو راہل گاندھی کے لیے چھوڑ دیا۔ وہ 2004 میں رائے بریلی چلی گئیں۔ راہل گاندھی 2004 سے 2019 تک وہاں سے پارلیمنٹ کے رکن رہے۔
کانگریس نے امیٹھی سے کشوری لال شرما کو کھڑا کیا ہے۔ وہ نہرو گاندھی خاندان کے قریب ہیں اور تقریباً چار دہائیوں سے کانگریس سے وابستہ ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ریاست پنجاب کے لدھیانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ 1983 سے رائے بریلی اور امیٹھی میں سرگرم ہیں۔
میم افضل کے مطابق کشوری لال شرما ان دونوں حلقوں میں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے نمائندہ رہے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں وہاں پارٹی کے تمام کام وہی کرتے رہے ہیں۔ ان کے بقول رائے بریلی اور امیٹھی کے عوام ان کی موجودگی کو سونیا اور راہل کی موجودگی سمجھتے ہیں۔
فورم