تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلپائن کی صدارتی انتخابی دوڑ میں جو امیدوار آگے ہیں، یعنی فرڈیننڈ مارکوس جونئیر وہ امریکہ کی حمایت کھوئے بغیر چین کے ساتھ بھی معاملات درست رکھنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم، انہوں نے جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ انتخاب جیت جائیں گے اپنی آئندہ پالیسیوں کے بارے میں چند ہی معلومات فراہم کی ہیں۔
اندرون ملک کے ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے فلپائن کے سابق ڈکٹیٹر کے بیٹے مارکوس پیر کے روز ہونے والے انتخابات میں اتنے آگے ہیں کہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کا ان تک پہنچنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ نوے فیصد ووٹوں کی گنتی ہو چکی ہے۔
ریڈیو فری ایشیا کی رپورٹ کے مطابق امیدوار کہہ چکے ہیں کہ وہ چین سے گہرے تعلقات چاہتے ہیں اور یہ کہ وہ دی ہیگ میں قائم ثالثی کی مستقل عدالت کی دو ہزار سولہ کی اس رولنگ سے بھی صرف نظر کر دیں گے، جس میں جنوبی بحیرہ چین پر بیجنگ کے اقتدار اعلیٰ کے دعوے کو رد کیا گیا ہے۔ منیلا کو چین کے دعووں سے اختلاف تھا۔ اور اس نے 2013ء میں ثالثی کی عالمی عدالت میں چین کے دعووں کے خلاف دعویٰ دائر کیا تھا۔
مارکوس نے صدر روڈریگو ڈوارٹے کی جگہ لینے کے لیے انتخابی مہم کے دوران چین کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ ڈوارٹے نے دو ہزار سولہ میں چین کے حامی کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کیا۔ لیکن جب ان کے تعلقات میں آہستہ آہستہ تلخی آنا شروع ہوئی تو وہ پھر سے واشنگٹن کی جانب لوٹ آئے، جو 1951 سے ایک معاہدے میں فلپائن کا اتحادی تھا جس نے بیجنگ کے ساتھ بحری جنگ کی صورت میں فوجوں کو تربیت دینے میں مدد کی تھی۔ واشنگٹن اور بیجنگ سابقہ سرد جنگ کے دور کے دشمن ہیں جو تجارت، ٹیکنالوجی اور چینی بحریہ کے پھیلاؤ پر ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں۔
منیلا میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ کار رامون کیسپل نے کہا ہے کہ اس حوالے سے کسی پالیسی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کیونکہ مارکوس مہم کے دوران کسی مخصوص پالیسی کے بارے میں بات کر نے سے احتراز کرتے رہے ہیں ۔
امریکہ میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے پیر کے روز ایک تبصرے میں بتایا کہ امیدوار کے والد جن کا نام بھی فرڈینڈ مارکوس تھا 1965 میں فلپائن کے پہلے منتخب صدر تھے، جنہوں نے سات سال بعد ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ ان کی حکومت نے ہزاروں لوگوں کو قید کیا، اذیتیں دیں اور ہلاک کیا۔ اور1986 میں ایک انقلاب کے نتیجے میں وہ اقتدار سے محروم ہوئے۔
تھنک ٹینک کے تبصرے میں کیا گیا ہے کہ بیٹے کی مہم میں اپنے باپ کے دور حکومت کو ظلم و ستم کے دور کی حیثیت پیش کیا گیا۔ اور مارشل لاء کے برسوں کو نسبتا امن اور خوشحالی کے دور کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ اور انہوں نے مسائیل کے بارے میں مباحثوں یا انٹرویوز میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔
اس تبصرے میں کیا گیا ہے کہ وہ بہرحال اس بارے میں واضح تھے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے جیسا کہ موجودہ لیڈر ڈوارٹے نے بھی کی، جنہیں اس سلسلے میں ملی جلی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
موجودہ رہنما 2016ء میں منصب سنبھالنے سے پہلے امریکی حکومت پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے صدر بننے کے بعد چند ہی مہینوں میں چین کا دورہ کیا۔ اور آخر کار 33 ارب ڈالر کی چینی امداد اور سرمایہ کاری کے وعدے حاصل کیے۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مارکوس جونئیر ہر چند کہ سیاسی طور پر ڈوارٹے سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، لیکن امکان ہے کہ وہ چین اور امریکہ کے معاملے میں غیر جانبدارنہ رویہ اختیار کریں گے۔
ہنولولو میں ایسٹ ویسٹ سینٹر ریسرچ آرگنائیزیشن کے نائب صدر ساتو لیمیا کہتے ہیں کہ انہیں مارکوس کے ٹریک ریکارڈ سے ایسا کوئی خاطر خواہ ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر وہ باور کرلیں کہ وہ چین کے ساتھ مکمل طور سے مل بیٹھنے کی غیر مبہم خواہش رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ غربت زدہ فلپائن میں چین کی بھاری سرمایہ کاری دروازے کھلے رکھے گی۔ چین خطے کی ایک بڑی طاقت ہے۔ فلپائن کا چین سے اہم تجارتی تعلق ہے۔ اور کچھ لوگ کہیں گے کہ چین۔ فلپائن کے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار میں توازن پیدا کرنے میں مدد دے گا۔
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے فلپائن کے انتخابات پر یہ کہتے ہوئے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ اس کا داخلی معاملہ ہے۔
تائیوان کی اسٹریٹیجی ایسو سی ایشن سے وابستہ جنوب مشرقی ایشیائی امور کے ماہر انریکو کاؤ کہتے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک عام طور سے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ممالک عمومی طور پر اقتصادی مدد کے لیے چین کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ فوجی مدد کے لیے امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ توازن ان کی ترجیح ہے۔