رسائی کے لنکس

الظواہری کی ہلاکت: طالبان کے پاس دوحہ معاہدے کی پاسداری کا انتخاب موجود ہے، امریکہ


نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اسٹرٹیجک کمیونیکیشنز کوآرڈی نیٹر جان کربی، وائٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفنگ کے دوران۔
نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اسٹرٹیجک کمیونیکیشنز کوآرڈی نیٹر جان کربی، وائٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفنگ کے دوران۔

امریکہ کے دفاعی حکام نے کہا ہے کہ کابل میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد طالبان کے پاس یہ انتخاب موجود ہے کہ وہ دنیا پر یہ ثابت کریں کہ وہ دوحہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کو اپنی پناہ گاہیں بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

وائٹ ہاؤس میں منگل کو ایک پریس بریفنگ کے دوران سلامتی سے متعلق قومی کونسل کے اسٹرٹیجک کمیونیکشنز کوآرڈی نیٹر جان کربی نے گزشتہ سال اگست میں افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے صدر جو بائیڈن کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی غیر موجودگی کے باوجود امریکہ کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ دہشت گردوں پر نظر رکھ سکے اور ان کا کامیابی کے ساتھ پیچھا کر سکے۔

جان کربی نے کہا ہے کہ 30جولائی کو، امریکہ نے کابل میں دہشت گردی کے خلاف ایک درست آپریشن کیا۔ جس میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایمن الظواہری کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گردوں میں ہوتا تھا۔ وہ نائن الیون کے حملوں کے دوران اسامہ بن لادن کا نائب بنا اور پھرسال 2011 میں امریکی انسداد دہشت گردی مشن کے دوران اسامہ کی ہلاکت کے بعد اس کے جانشین کے طور پر سامنے آیا۔الظواہری امریکی عوام، مفادات اور قومی سلامتی کے لیے ایک فعال خطرہ تھا۔

ان کے بقول ''ہم نے صدر بائیڈن کے اس وعدے کو پورا کیا جس کے مطابق افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا، جو امریکیوں او ر امریکہ نقصان پہنچا سکتے ہوں۔''

جان کربی کے مطابق یہ کارروائی ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان میں زمین پر امریکی افواج کی موجودگی کے بغیر بھی ہم اب بھی دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد کی شناخت اور اس کا پتہ لگانے کے قابل ہیں۔

أفغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی ڈورن حملے میں الظواہری کی ہلاکت کے بعد اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین، افغانستان کے اقتدار اعلیٰ اور دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔جب کہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایمن الظواہری اور ان کے خاندان کو پناہ دے کر طالبان نے دوحہ معاہدے کی پاسداری نہیں کی جس میں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پر دہشت گردوں اپنے ٹھکانے اور پناہ گاہیں قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

یاد رہے کہ امریکی ڈرون حملے میں کابل کے مرکزی حصے کے ایک محفوظ علاقے کے ایک سیف ہاؤس میں، جہاں ماضی میں زیادہ تر سفارت کاروں کی رہائش گاہیں تھیں، ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا گیا تھا، جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھا۔

پریس بریفنگ میں جان کربی کا کہنا تھا کہ'' ہم نے طالبان پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کیا اور انہوں نے کس کو پناہ دی۔ ہم ایسے اقدامات کے متعلق بھی جانتے ہیں جو طالبان نے الظواہری کے خلاف کارروائی کے شواہد چھپانے کے لیے کیے۔''

ان کا کہنا تھا کہ طالبان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات چاہتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی برادری کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ مالی مدد چاہتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے اور وہ واقعی یہی چاہتے ہیں تو پھر ان کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کریں۔

جان کربی کے بقول'' الظواہری کے خلاف کابل میں کارروائی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ القاعدہ کا خطرہ ختم ہو گیا ہے۔ہم نے افغانستان سے نکلتے وقت کہا تھا کہ ہم چوکس اور تیار رہیں گے اور افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان میں القاعدہ کے کچھ جنگجو موجود ہیں جن کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ان میں القاعدہ کی خراسان شاخ بھی شامل ہے۔ ہماری ان پر نظر ہے۔ اگر امریکہ اور امریکی عوام کو ان کی جانب سے یا کسی دوسرے دہشت گرد گروہ کی طرف سے خطرہ لاحق ہوتا ہے توامریکی صدر دوبارہ یہ کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔''

خبررساں ادارے' رائٹرز' کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کافی عرصے سے الظواہری کا پیچھا کر رہی تھی اوراس نے کابل میں اس کی موجودگی کے متعلق ٹھوس معلومات حاصل کر لیں تھیں۔ جس کے بعد اعلیٰ دفاعی حکام نے ان معلومات اور شواہد کو صدر جوبائیڈن کے سامنے رکھا جنہوں نے عالمی دہشت گرد کے خلاف ایک محفوظ کارروائی کی اجازت دی جس میں عام شہریوں کی جان و املاک کے نقصان کا خطرہ کم سے کم ہو۔

'رائٹرز' کےمطابق اگر الظواہری کی موجودگی افغانستان کے کسی دور افتادہ علاقے میں ظاہر ہوتی تو طالبان یہ دعویٰ کر سکتے تھے کہ وہ اس سے لاعلم تھے البتہ وہ دارالحکومت کابل کے مرکزی حصے میں الظواہری کی موجودگی سے بے خبر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کیونکہ کابل میں طالبان تلاشی اور جانچ پڑتال کی کئی کارروائیاں کر چکے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں جان کربی کا کہنا تھا کہ طالبان یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ ظواہری اور ان کے خاندان کو پناہ دے رہے تھے۔ اس لیے امریکہ نے وہی کیا جس کا صدر بائیڈن نے وعدہ کیا تھا۔ اب طالبان کے پاس ایک انتخاب موجود ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کریں۔

ایک اور سوال کے جواب میں جان کربی کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کے کئی سینئر ارکان الظواہری کی موجودگی سے آگاہ تھے۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداے 'رائٹر' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG