رسائی کے لنکس

دہلی میں خاتون کی موت کا لرزہ خیز واقعہ، تیز رفتار کار کئی کلومیٹر تک گھسیٹتی رہی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

نئے سال کے جشن سے لوٹنے والے پانچ نوجوانوں کی کار سے ایک 23 سالہ خاتون کی اسکوٹی ٹکراتی ہے اور کار اسے کئی کلومیٹر تک گھسیٹتے ہوئے لے جاتی ہے, جس کی وجہ سے خاتون کی دردناک انداز میں موت ہو جاتی ہے۔

یہ واردات دہلی کے علاقے سلطان پوری اور کنجھاوالا کے درمیان پیش آئی۔ رپورٹس کے مطابق نوجوان ماروتی سوزوکی بلینو کار میں سوار تھے۔ پولیس کنٹرول روم کو اتوار کی صبح ساڑھے تین بجے کار سے ایک خاتون کو گھسیٹنے کی کال موصول ہوتی ہے۔ پولیس کو چار بج کر 11 منٹ پر ایک سڑک پر خاتون کی لاش ملتی ہے۔

خاتون کا نام انجلی ہے اور وہ امن وہار کی رہنے والی تھیں۔ ان کے گھر میں والدہ، چار بہنیں اور دو چھوٹے بھائی ہیں جب کہ والد کا کئی برس قبل انتقال ہو چکا ہے۔

انجلی میرج پلانر اور گھر کی واحد کمانے والی تھیں۔ وہ اپنی این اسکوٹی پر سوار ایک شادی کے پروگرام سے گھر واپس آ رہی تھیں کہ ایک کار نے ان کی اسکوٹی کو ٹکر ماری، جس کے بعد انجلی کے کپڑے گاڑی میں پھنس گئی اور کار انہیں کئی کلومیٹر تک گھسیٹتے ہوئے لے گئی۔

پولیس کے مطابق اس واقعے کی وجہ سے خاتون کی حالت تشویش ناک ہوگئی تھی۔ ان کے کپڑے پھٹ چکے تھے اور جسم کے پچھلے حصے کی جلد بری طرح چھل گئی تھی۔

بعد ازاں جب انجلی کو دہلی کے اسپتال ایس جی ایم اسپتال منگول پوری بھیجا گیا، تو ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی۔

انجلی کی والدہ کا الزام ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔

آوٹر دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) ہریند رکمار سنگھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حادثے کے وقت خاتون اسکوٹی سے گر گئی تھیں اور کار کے نچلے حصے میں پھنس گئی۔ یہ کار ہلاک ہونے والی خاتون کو سلطان پوری سے 13 کلومیٹر دور کنجھا والا تک گھسیٹی ہوئی لے گئی۔

پولیس نے کار میں سوار تمام پانچوں افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ان کے نام دیپک کھنہ، امت کھنہ، کرشنا، متھن اور منوج متل ہیں جب کہ ان کے عمریں 25 سے 27 سال کے درمیان ہیں۔

ایک مقامی عدالت نے انہیں تین روز کے لیے پولیس تحویل میں دے دیا ہے۔

ڈی سی پی کے مطابق پوچھ گچھ کے دوران ملزمان نے بتایا کہ کار کی کھڑکی بند تھی۔ کار میں تیز آواز میں میوزک بج رہا تھا جس کی وجہ سے انہیں حادثے کا علم نہیں ہو سکا۔ جب انہیں اس کا پتا چلا تو وہ فرار ہو گئے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی کار اسکوٹی سے ٹکرائی تھی۔

پولیس اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ کیا خاتون اور ملزمان کے درمیان کوئی گفتگو ہوئی تھی۔

واقعے پر احتجاج

اس واقعے کے خلاف سلطان پوری کے علاقے میں احتجاج ہو رہا ہے۔ بڑی تعداد میں مقامی باشندے پولیس تھانے کے باہر جمع ہوئے۔

مظاہرین نے پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔ ان کا الزام ہے کہ پولیس اس معاملے کو ایک سڑک حادثہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مظاہرین نے وہاں پہنچنے والی عام آدمی پارٹی کی رکن اسمبلی راکھی برلا کی کار پر حملہ بھی کیا۔

راکھی نے وہاں سے جانے سے انکار کر دیا اور متوفیہ کے اہلِ خانہ کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ گئیں۔

دہلی کے لیفٹننٹ گورنر وی کے سکسینا اور وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے واقعے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

سکسینہ کے مطابق وہ مجرموں کی بے حسی پر حیرت زدہ ہیں جب کہ کیجری وال نے ملزمان کی سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے پر ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔

غیرجانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ

قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ریکھا شرما اور دہلی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے دہلی کے پولیس کمشنر سنجے اروڑہ کے نام الگ الگ خط میں شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہییں کہ خاتون کے ساتھ زیادتی تو نہیں کی گئی۔

لیفٹننٹ گورنر نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس کمشنر ان کے رابطے میں ہیں اور کیس کے تمام پہلوؤں کی جانچ کی جا رہی ہے۔

’ایسا لگتا ہے کہ پولیس کسی کوجواب دہ نہیں‘

انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے بھی اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی سینئر کارکن اور خواتین کے مسائل پر کام کرنے والی شیبہ اسلم فہمی نے پولیس اور سیاست دانوں کو اس واقعے کا ذمے دار قرار دیا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس نے نئے سال پر زبردست حفاظتی انتظامات کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پولیس صرف وی آئی پیز کے تحفظ میں لگی رہتی ہے۔ اسے عام لوگوں کے تحفظ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولیس کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ ان کے بقول ہر تھانے میں 60 فی صد عملہ وی آئی پی ڈیوٹی کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں جو سیاسی و سماجی ماحول بن گیا ہے اس کی وجہ سے بھی ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق ملکی سیاست کو جرائم زدہ کر دیا گیا ہے۔

ان کے بقول جب ایک مذہب کے ذمے دار دوسرے مذہب کے لوگوں کے خلاف تشدد کرنے کی اپیل کریں گےاور کہیں گے کہ اپنے گھروں میں چاقو چھری تیز کرکے رکھیں تو اس قسم کے ہی واقعات ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور حکومت ان کو روکنے میں ناکام ہے۔ وہ باہر بھی غیر محفوظ ہیں اور گھر کے اندر بھی۔ کہیں غیرت کے نام پر ان کا قتل ہو رہا ہے۔ کہیں انہیں راہ چلتے مار دیا جاتا ہے تو کہیں جنسی زیادتی کے بعد ان کی زندگی چھین لی جاتی ہے۔

ملزمان کی سیاسی وابستگی؟

دہلی کی حکمران جماعت عام آدمی پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ ملزمان میں سے ایک منوج متل بی جے پی کا رہنما ہے، اس لیے پولیس معاملے کی لیپا پوتی کر رہی ہے۔

انہوں نے لیفٹننٹ گورنر کو برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

عام آدمی پارٹی کے ترجمان سوربھ بھاردواج نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ منوج متل کی تصویر کا ایک بورڈ اسی تھانے کے باہر آویزاں ہے جس میں پانچوں ملزمان کو رکھا گیا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کے کپڑے غائب تھے تو یہ کیسے ممکن ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

بی جے پی دہلی کے میڈیا سیل کے سربراہ ہریش کھورانہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے اور انہیں اس سے قطع نظر کہ وہ کس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، سخت سزا دی جائے گی۔

ان کے مطابق منوج متل پارٹی کی سلطان پوری شاخ کا ایک معمولی عہدے دار ہے۔ اسے چار روز قبل ڈیٹا انٹری کے لیے معاون کنوینر مقرر کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ متل کی تصویروں کے پوسٹر اور بورڈ سلطان پوری میں جگہ جگہ آویزاں ہیں۔

بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے چیئرمین امت مالویہ نے اروند کیجری وال پر تنقید کی اور خواتین کے عدم تحفظ کے سلسلے میں انہیں موردِ الزام ٹھہرایا۔

ان کے مطابق ریاست پنجاب میں پولیس بھی عام آدمی پارٹی کے حکومت کے ماتحت ہے لیکن وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

یاد رہے کہ انتظامی طور پر دہلی پولیس کیجری وال حکومت کے ماتحت نہیں بلکہ مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ کے ماتحت ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG