خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کی ایک عدالت کے احاطے میں پولیس کی زیرِ حراست ایک خاتون کو اس کے شوہر نے گولی مار کر قتل کر دیا ہے۔
جمعے کو ہری پور تھانہ سٹی کے پولیس حکام نے بتایا کہ گولی لگنے سے صدف بشیر نامی خاتون شدید زخمی ہوئی جسے فوری طور پر پہلے ہری پور کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال اور پھر ایبٹ آباد کے میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا۔ لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔
پولیس کے مطابق واقعے کے فوری بعد فائرنگ کرنے والے ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق 24 جولائی کو صدف بشیر زوجہ ساجد محمود نے ایک 14 سالہ لڑکی ثانیہ کو مبینہ طور پر اغوا کیا تھا، جو اس کے شوہر کی بھانجی ہے۔ ثانیہ کے والد غلام فرید کی درخواست کے بعد 30 جولائی کو ثانیہ کو پنجاب کے ضلع بہاول نگر کے رینجرز سینٹر سے برآمد کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق ثانیہ نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان قلم بند کرایا جس میں اس نے صدف بشیر زوجہ ساجد محمود سمیت دیگر افراد پر اپنے اغوا کا الزام عائد کیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دورانِ تفتیش ثانیہ کے اغوا کے الزام میں سات میں سے پانچ ملزموں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن کے مقدمات کی سماعت جاری ہے۔ اسی سلسلے میں ملزمہ صدف بشیر بھی جوڈیشل مجسٹریٹ ہری پور کے سامنے پیش ہوئی تھی۔
پیشی کے موقع پر صدف بشیر کا شوہر ساجد محمود بھی وہاں موجود تھا جس نے اپنی بیوی صدف بشیر سے تلخ کلامی کے بعد اسے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
پولیس نے ملزم کو آلۂ قتل سمیت گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس نے عداوت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مبینہ طور پر اغوا کی جانے والی ثانیہ کو، جو کہ ساجد محمود کی بھانجی ہے، صدف بشیر اغوا کر کے عمیر زمان ولد گل زمان نامی شخص کے پاس بہاول نگر لے گئی تھی۔ عمیر زمان رینجرز میں ملازم ہے۔
پولیس کے مطابق قتل کی جانے والی خاتون دو بچوں کی والدہ تھیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کو احاطۂ عدالت میں قتل کی واردات میں سیکیورٹی کی غفلت پر انچارج سیکیورٹی گیٹ اور تین پولیس اہل کاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
اس واقعے پر ہری پور کے ایک صحافی ملک اقبال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدف بشیر نامی خاتون اغوا کے ایک مقدمے میں ہری پور جیل میں قید تھی اور اس کا اپنے شوہر سے بھی تنازع چل رہا تھا۔
ملک اقبال کا کہنا تھا کہ صدف بشیر عدالت میں پیشی کے بعد باہر نکل رہی تھی جب اس کے شوہر نے فائرنگ کی۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ چند مہنیوں میں دوسری مرتبہ احاطۂ عدالت میں فائرنگ سے زیرِ حراست ملزم کو قتل کرنے کا واقعہ ہوا ہے۔
قبل ازیں 29 جولائی کو پشاور کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کی عدالت میں توہینِ مذہب کے مقدمے میں زیرِ حراست ملزم کو ایک لڑکے نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
واقعے میں ملوث حملہ آور سمیت تین افراد کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ گرفتار افراد میں ایک وکیل بھی شامل ہے جس نے مبینہ طور پر ملزم کو عدالت کے احاطے میں پستول فراہم کی تھی۔
عدالتوں کے احاطے میں قتل کے واقعات پر عام شہریوں کے ساتھ ساتھ وکلا بھی پریشان ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر خالد انور ایڈووکیٹ نے ہری پور کی عدالت کے احاطے میں خاتون کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
خالد انور ایڈووکیٹ کے مطابق عدالتوں کے احاطے میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے بارے میں اُنہوں نے از خود خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے دوسرے ہی دن پشاور کی عدالت میں ایک زیرِ حراست ملزم کو قتل کرنے کا واقعہ پیش آیا۔
خالد انور نے بتایا کہ انہوں نے آئندہ ہفتے خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس کو پشاور ہائی کورٹ بار روم آنے اور وکلا سے تبادلۂ خیال کرنے کی دعوت دی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ صوبے بھر کی عدالتوں میں سیکیورٹی کے انتظامات کو بہتر بنایا جائے۔