کرونا وائرس کے باعث دُنیا کے مختلف ملکوں میں کئی کمپنیوں اور سرکاری اداروں نے اپنے ملازمین کو گھروں سے کام کرنے کی ہدایت کی ہے۔ طلبہ بھی گھروں سے آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔ اس دوران ملازمین کمپنی ڈیٹا اور دیگر مواد بھی ہمراہ لے گئے ہیں۔
سائبر سیکیورٹی سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیکرز اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا کر کمپنیوں کے ڈیٹا میں مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ملازمین کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
نیٹ ورکنگ کی بڑی کمپنی 'سیسکو انٹرنیشنل' کو موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد میں 10 گنا تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کرونا وائرس کے باعث بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہے۔ لہذٰا اُن کو سائبر سیکیورٹی کا چیلنج درپیش ہے۔
ماہرین کے بقول ان افراد کو گھر سے کام کرنے کے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں وقت لگے اور اس دوران وہ غلطیاں بھی کریں گے۔ جس سے سائبر جرائم کرنے والے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
سیسکو کے سائبر سیکیورٹی شعبے میں کام کرنے والی وینڈی نیدر کا کہنا ہے کہ اچانک ایسے بڑے فیصلوں سے غلطیوں کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس سے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ لوگوں پر دباؤ بڑھ جائے گا۔
لیکن اس سے یہ بھی خدشہ ہے کہ سائبر جرائم کرنے والے جعل سازی کے ذریعے لوگوں کے پاس ورڈز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ وینڈی کو یہ بھی خدشہ ہے کہ سائبر جرائم کرنے والے وائرس زدہ سافٹ ویئرز اور جعلی انتباہ پر مبنی پیغامات پھیلا کر لوگوں میں افراتفری پھیلانے کی بھی کوشش کر سکتے ہیں۔
امریکہ میں سائبر سیکیورٹی حکام نے کمپنیوں کو ایک ایڈوائزری بھی جاری کی ہے۔ جس میں سیکیورٹی نظام کو مضبوط بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
برطانیہ کی نیشنل سائبر سیکیورٹی ایجنسی نے بھی گھروں سے کام کرنے والے ملازمین کے لیے چھ صفحات پر مشتمل ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔
البتہ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سائبر جرائم کرنے والے عناصر بھی متحرک ہیں۔ وہ کوشش کریں گے کہ گھروں سے کام کرنے والے ملازمین کے ذریعے بڑی کمپنیوں تک سائبر رسائی حاصل کر سکیں۔