اصفر امام
پاکستان نے سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد اور بھارت کے بعض ڈیموں کی تعمیر پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے عالمی بینک سے ایک بار پھر مداخلت کی اپیل کی ہے۔
پاکستان کا دعوی ہے کہ عالمی بینک نے اس سلسلے میں ایک اور کوشش کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ بھارت کا موقف ہے کہ دو طرفہ مسائل میں کسی تیسری قوت کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔
سوموار کی صبح پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عالمی بینک کے سربراہ جیم یونگ کم سے ملاقات کی اور ان سے سندھ طاس معاہدے کے تناظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازعے گفتگو کی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی بینک سندھ طاس معاہدے کا کسٹوڈین ہے۔ اور پانی کے مسئلے پر جنوبی ایشیاء کے ان دونوں بڑے ممالک کے درمیان تنازع سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک میں باہمی طور پر یہ مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت موجود نہیں، لہذا عالمی بینک کو اس سنگین مسئلے میں مداخلت کرنا ہو گی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انڈس واٹر ٹریٹی کا ورلڈ بینک کسٹوڈین ہے اور ہم نے ایک درخواست ان کو دے رکھی ہے کہ دو ہائیڈرو پراجیکٹس ہیں کرشن گنگا پروجیکٹ اور رتل ڈیم پروجیکٹ، پاکستان کو جن پر سنگین اعتراضات ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ورلڈ بنک اس پر اپنا کردار ادا کرے۔ میں نے پاکستان کا موقف پیش کیا اور عدالتی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا ہے اور انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس پر ایک اور کوشش کریں گے تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جاسکے، دو طرفہ طور پر پاکستان اور بھارت اس مسلے کو حل نہیں کر سکے تو انھوں نے ایک اور کوشش کا وعدہ کیا ہے۔
بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی کے قومی ترجمان ظفر السلام نے عالمی بینک کے سامنے مسلہ اٹھانے پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اگر یہ مسئلہ عالمی فورم پر اٹھایا ہے تو بھارتی وزار ت خارجہ اس کا موثر جواب دے گی۔
ظفر اسلام کا کہنا تھا کہ پاکستان کیا کر رہا ہے وہ پاکستان جانے، جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے اس کی خارجہ پالیسی بالکل واضح ہے۔ اگر پاکستان نے ایسی کوئی حرکت کی ہے تو ہندوستانی وزات خارجہ اس کا ردعمل دیے گی۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے چناب،جہلم اور سندھ کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا جبکہ راوی، ستلج اور بیاس بھارت کے حوالے کئے گئے تھے۔ دریاؤں پر کسی بند کی تعمیر کے لئے اس کے ڈیزائن پر باہمی مشاورت ضروری تھی۔ متعدد اجلاسوں کے باوجود دونوں ممالک کے اختلافات بدستور قائم ہیں۔
پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت اس کے حصے کا پانی روک رہا ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے حصے کا زیادہ تر پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔
عالمی بینک نے پاکستان کی درخواست پر دونوں ممالک کے درمیان معاملہ طے کرانے کی کوشش کی تھی لیکن بھارت کے اعتراض کے باعث پیش رفت نہیں ہو سکی۔