صدرارتی انتخاب میں رپبلیکن پارٹی کی نامزدگی کے حصول کے لیے صف اول کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر عراق کے صدام حسین اور لیبیا کے معمر قذافی آج اقتدار میں ہوتے تو یہ دنیا کے لیے بہتر تھا۔
اتوار کو انہوں نے ’سی این این‘ کے ایک پروگرام میں کہا کہ عراق ’’دہشت گردی کی یونیورسٹی‘‘ بن چکا ہے جہاں ’’دہشت گرد تربیت پاتے ہیں۔‘‘
’’لوگوں کے سر کٹ رہے ہیں۔ وہ ڈوب رہے ہیں۔ اب کی صورتحال اس وقت سے بہت بدتر ہے جس وقت صدام حسین اور قذافی اقتدار میں تھے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ دو آمر حکمران اقتدار میں رہتے تو یہ ممالک اتنی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا شکار نہ ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ صدر اوباما اور سابق وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی طرف سے اپنے عہدے سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ ’’سخت عدم اتفاق‘‘ کا شکار ہو گیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی ہلری کلنٹن صدراتی انتخاب میں ان کی سب سے بڑی حریف ہیں۔
رپبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی جانب سے عراق پر حملے کے فیصلے پر بھی تنقید کی۔ یہ حملہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے متعلق غلط انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
عراق کے سابق صدر صدام حسین کو 2003 میں امریکی حملے کے بعد معزول کر دیا گیا تھا اور انہیں 2006 میں سزائے موت دی گئی تھی۔
لیبیا پر چار دہائیاں حکومت کرنے والے قذافی کو 2011 میں معزول کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
’سی بی ایس نیوز‘ کے ایک نئے سروے کے مطابق ٹرمپ اب بھی قومی سطح پر آگے ہیں مگر آیووا ریاست میں ان کی اور ریپلیکن پارٹی کے ایک اور امیدوار بین کارسن کی مقبولیت 27 فیصد کے ساتھ برابر ہے۔ آئیوا میں صدارتی نامزدگی کے لیے سب سے پہلے رائے شماری کی جائے گی۔
گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے دو جائزوں کے مطابق آئیوا میں کارسن ٹرمپ سے آگے تھے۔