ترکی میں خفیہ فرقہ بنانے والی ٹیلی ویژن شخصیت عدنان اوکتار کو استنبول کی ایک عدالت نے آٹھ ہزار 658 برس عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ اسے دنیا میں دی جانے والی طویل ترین عمر قید کی سزاؤں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل بھی ایسی سزائیں دی جا چکی ہیں اور یہ سوال بھی ہر بار ہی اٹھایا جاتا ہے کہ جب اتنی طویل زندگی ہی ممکن نہیں تو اتنی طویل سزائیں کیوں دی جاتی ہیں؟
عدنان اوکتار کو دی گئی آٹھ ہزار سال سے زیادہ عمر قید کی سزا سوشل میڈیا پر ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اس سے قبل جنوری 2021 میں 1075 سال کی سزا سنائی گی تھی ۔تاہم اعلیٰ عدلیہ نے مقدمے میں پائے جانے والے قانونی سقم کے باعث دوبارہ عدالتی کارروائی کے احکامات دیے تھے۔
لیکن استغاثہ نے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا جس کے بعد عدنان اوکتار سمیت دیگر ملزمان کو رواں برس گرفتار کرلیا گیا۔
ترکی کے ’ڈیلی صباح‘ کے مطابق بدھ کو اوکتار اور ان کے دو سو سے زائد ساتھیوں کو منظم مجرمانہ گروہ چلانے، جنسی زیادتی، نابالغ افراد کے ساتھ جنسی زیادتی، تعلیم سے روکنے، تشدد، اغوا اور غیر قانونی طور پر ذاتی معلومات جمع کرنے جیسے الزامات میں سزا سنائی گئی ہے۔
عدالتی فیصلے میں عدنان اوکتار کو مجموعی طور پر 8658 سال کی سزا دی گئی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ چوں کہ وہ خفیہ فرقے کے سربراہ تھے اس لیے ان کے شاگردوں اور ماننے والوں کے جرائم کی سزا بھی اُنہیں ملنی چاہیے۔
عدنان اوکتار ترکی میں ایک ٹی وی چینل بھی چلاتے رہے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے نظریہ ارتقا کے خلاف ہارون یحیی کے نام سے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں جو دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں۔
وہ روایتی اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کے دعوے دار تھے تاہم انہوں ںے ترکی میں ایک خفیہ فرقہ یا ’کلٹ‘ قائم کرلیا تھا اور اکثر مختصر لباس میں ملبوس خواتین میں گھرے رہتے تھے جنہیں وہ ’کٹن‘ یا بلونگڑے کہا کرتے تھے۔
عدنان اوکتار کو دی جانے والی آٹھ ہزار سال سے زیادہ کی عمر قید پر سوشل میڈیا میں حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ آٹھ ہزار سال بہت طویل عرصہ ہے تاہم دنیا میں اس سے بھی زیادہ طویل عرصے کی سزائیں دی جاچکی ہیں۔
تیس ہزار سال قید
امریکہ میں اوکلوہوما سٹی میں ہونے والے 1995 میں دھماکوں میں 168 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں 19 بچے بھی شامل تھے۔
اس حملے میں دائیں بازو کے دہشت گرد ٹیری نکولس نے اپنے ساتھی اور سابق فوجی اہلکار ٹموٹھی مک وے کی مدد کی تھی۔ الزامات ثابت ہونے کے بعد ٹیری نکلوس کو 161 بار عمر قید دی گئی تھی جب کہ حملہ آور مک وے کو سزائے موت دی گئی۔
ایک اور مقدمے میں اوکلو ہوما کی ایک جیوری نے ایک چھوٹے بچے کے ریپ کے الزام میں چارلس اسکاٹ روبن سن نامی شخص کو 30 ہزار سال قید کی سزا سنائی تھی۔
تھائی لینڈ کا ریکارڈ
گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کی سب سے طویل قید کی سزا کا ریکارڈ تھائی لینڈ کے پاس ہے۔
تھائی لینڈ میں 1989 میں تھائی پیرامڈ اسکیم کے نام سے فراڈ کرنے والی ایک خاتون چیموئے تھپیاسو کو ایک لاکھ 41 ہزار 78 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اگرچہ چیموئے پر تھائی لینڈ کے شاہی خاندان کے افراد کو دھوکہ دہی کے الزامات بھی تھے تاہم تاریخ کی طویل ترین عمر قید پانے والی یہ خاتون آٹھ سال جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوگئی تھیں۔
یورپ کی طویل ترین سزا
اسپین میں 2004 میں ہونے والے میڈرڈ ٹرین حملوں کے ملزمان کو یورپ کی تاریخ کی سب سے طویل سزا سنائی گئی تھی۔
ان حملوں میں 193 افراد ہلاک ہوئے تھے اور تین ملزمان کو ایک لاکھ 20 ہزار سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسپین میں علیحدگی پسند گروپ ای ٹی اے کے ارکان کو بھی مختلف دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہزاروں برس کی عمر قید دی جاچکی ہے۔
تاہم یورپی یونین کے قوانین اسپین کو کسی بھی مجرم کو زیادہ سے زیادہ 30 سے 40 سال تک قید کی سزا دینے تک محدودکرتے ہیں لیکن اس اصول کا اطلاق اس پر منحصر ہے کہ مجرم کو سزا کب ہوئی تھی۔
ترکی میں دی گئی ایک اور طویل عمر قید
عدنان اوکتار کو ہونے والی آٹھ ہزار سال کی عمر قید سے قبل ترکی ہی میں 2017 کے سالِ نو کے پہلے دن قتلِ عام کرنے والے ازبک دہشت گرد عبدالقادر مشاریپوف کو 40 بار عمر قید سنائی گئی تھی۔
اس حملے کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے تسلیم کی تھی۔ اس حملے کے مقدمے میں حملہ آور کو مجموعی طور پر 1368 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
برطانیہ میں 490 سال کی قید
برطانیہ کی تاریخ میں سب سے طویل سزا آئرش ری پبلک آرمی کے بمبار اور اسنائپر برنرڈ مکجن کو دی گئی تھی۔ انہیں لندن میں کیے گئے حملوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے 490 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
تاہم صرف 16 ماہ قید میں گزارنے کے بعد انہیں بعدازاں 2000 میں ہونے والے ایک معاہدے کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔
کئی سو سال کی سزائیں کیوں دی جاتی ہیں؟
دنیا بھر میں دی جانے والی سینکڑوں یا ہزاروں سال کی سزائیں اس لیے عجیب محسوس ہوتی ہیں کہ ان کی مدت انسانوں کی اوسط عمر سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
اس لیے ماہرینِ قانون کے مطابق سزا کے طویل دورانیے کی حیثیت قانونی سے زیادہ علامتی ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ کسی جرم کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق کئی مرتبہ جرم کی نوعیت اتنی سنگین ہوتی ہے کہ اس کےمقابلے میں دی جانے والی سخت ترین سزا کم محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے کئی مرتبہ انصاف ہوا، اس بات کا احساس دلانے کے لیے کہنے سننے کی حد تک ہی سزا کو سخت ترین بنادیا جاتا ہے۔
قانونی تقاضے
اس کے علاوہ بعض قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے بھی بظاہر ناقابلِ عمل نظر آنے والی سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔
امریکہ اور کئی مغربی ممالک سے متعلق سزاؤں کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہےکہ کئی سو برس یا متعدد بار عمر قید دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتاہے کہ اب مجرم ساری عمر ہی قید میں گزارے گا۔
اس کے علاوہ کئی مرتبہ کسی مجرم کے پیرول پر مختصر مدت کے لیے جیل سے باہر آنے کے امکانات بھی مسدود کردیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے قوانین کیا کہتے ہیں؟
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ بار عمر قید کی سزا یا ایک سے زیادہ بار موت کی سزا دینے کے قانونی تقاضے بھی ہوتے ہیں۔
وہ پاکستانی قوانین سے متعلق بتاتے ہیں کہ عدالت ایف آئی آر میں درج ہونے والی تمام دفعات کے تحت مقدمے کی کارروائی کرتی ہے۔ اس میں جو جو جرائم ثابت ہوتے ہیں ان کی الگ الگ سزا دی جاتی ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اپیل میں کسی ایک الزام میں سزا کم یا معطل ہونے کی صورت میں ملزم قانون کی گرفت سے نہ نکل جائے اور اگر کسی اور دفعہ کے تحت اسے سزا ملنی چاہیے تو وہ اپنی سزا پوری کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سے زائد بار دی جانے والی عمر قید کی سزائیں عام طور پر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں جا کر جمع کردی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کسی مجرم کو سزائے موت اور عمر قید دونوں سنائی جائیں اور تمام عدالتی مراحل سے گزرنے کے بعد بھی یہ دونوں سزائیں برقرار رہیں تو سخت ترین سزا پر عمل کیا جائے گا، یعنی ایسے ملزم کو سزائے موت دے دی جائے گی۔
جسٹس رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ اسی طرح ایک سے زائد بار سزائے موت کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اگر کسی شخص پر ایک سے زائد افراد کا قتل ثابت ہوجاتا ہے تو اس کو پھانسی تو ایک ہی بار دینا ممکن ہے۔ لیکن اول تو اس پر تمام جرائم الگ الگ ثابت ہونے اور جرم کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے علامتی طور پر کسی مجرم کو سزائے موت دی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ طویل ترین قید کاٹنے والوں کو مختلف قومی و مذہبی تہواروں پر اچھے طرزِ عمل کی بنا پر سزا میں رعایت بھی دی جاتی ہے لیکن دہشت گردی یا ریاست مخالف سرگرمیوں میں سزا پانے والے افراد پر اس رعایت کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس تحریر میں میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔