امریکہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو جمال خشوگی کے قتل کے معاملے میں قانونی کارروائی سے استثنا حاصل ہے۔
جمعرات کو جوبائیڈن حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی سرکاری حیثیت کی وجہ سے امریکہ میں انہیں مقتول صحافی جمال خشوگی کی منگیتر اور شہری حقوق کے گروپ ‘ڈیموکریسی فور عرب ورلڈ‘ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں قانونی کارروائی سے استثنا حاصل ہے۔
وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان کے جاری کردہ ایک تحریری بیان کے مطابق سعودی ولی عہد کے استثنا پر محکمۂ خارجہ کا یہ موقف بین الاقوامی قانون کی طے شدہ روایت کے تحت ہے۔
ترجمان نے واضح کیا ہے کہ اس مؤقف کا کیس کے میرٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ترجمان نے اس معاملے پر مزید سوالات کے لیے خارجہ اور انصاف کی وزارتوں سے رجوع کرنے کے لیے کہا ہے۔
اس بیان پر جمال خشوگی کی سابق منگیتر خدیجہ جنگیر نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ جمال آج ایک بار پھر مرگئے۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ہمارا خیال تھا کہ امریکہ میں انصاف کی روشنی ملے گی لیکن ایک بار پھر مال کو ترجیح دی گئی۔
بائیڈن حکومت کی جانب سے آنے والے بیان پر تاحال سعودی عرب کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
محکمۂ انصاف کا مؤقف
جمال خشوگی کے معاملے پر امریکہ میں ڈسٹرک آف کولمبیا کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں وزارتِ انصاف کے اٹارنیز کے جمع کرائی گئی دستاویز میں کہا گیا ہےکہ کسی سربراہِ ریاست کے لیے استثنا کا تصور بین الاقوامی قانون میں طے شدہ روایت کی حیثیت رکھتا ہے۔
محکمۂ انصاف کے وکلا کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت نے اس کیس میں مدعا علیہ محمد بن سلمان کو غیر ملکی حکومت کے سربراہِ ریاست ہونے کی وجہ سے اپنا مؤقف واضح کیا ہے اور کسی بھی سربراہِ مملکت کو امریکی عدالتوں کے دائرۂ اختیار سے استثنا حاصل ہوتا ہے۔
رواں برس ستمبر میں سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کو ایک شاہی حکم نامے کے ذریعے مملکت کا وزیرِ اعظم مقرر کیا تھا۔
اس حکم نامے کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے وکلا نے امریکہ کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ شاہی فرمان کے بعد ولی عہد کو اپنے منصب کی بنیاد پر عدالتی کارروائی سے استثنا کا استحقاق مل گیا ہے۔
درخواست میں امریکہ میں دیگر سربراہانِ مملکت کو استثنا کا حوالہ دیتے ہوئے ولی عہد کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
بائیڈن حکومت کے مؤقف پر تنقید
صدر بائیڈن کو روا ں سال جولائی میں توانائی اور سیکیورٹی امور پر گفتگو کے لیے سعودی عرب کے دورے میں محمد بن سلمان سے ملاقات کی بنا پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے اس بارے میں بیان جاری کیا تھا کہ صدر بائیڈن نے شہزادہ محمد بن سلمان پر واضح کردیا تھا کہ وہ انہیں صحافی جمال خشوگی کے قتل کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔
سعودی ولی عہد جمال خشوگی کے قتل کے احکامات دینے کی ترید کرتےہیں البتہ انہوں نے بعد میں یہ تسلیم کیا کہ یہ کارروائی ان کی ںگرانی میں ہوئی تھی۔
جمال خشوگی امریکہ کے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں سعودی ولی عہد کی پالیسیوں پر تنقید کیا کرتےتھے۔ وہ اکتوبر 2018 کو ایک ترک شہری اور اپنی منگیتر خدیجہ چنگیز سے شادی کے لیے دستاویز حاصل کرنے استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں سعودی اہل کاروں نے قتل کردیا تھا۔
جمال خشوگی کے قتل کیس سے متعلق جو بائیڈن حکومت کے مؤقف پر عرب دنیا میں جمہوری حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ’ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ‘ کی ترجمان سارا لی وٹسن نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ یہ بات کسی المیے سے بڑھ کر ہے کہ صدر بائیڈن نے محمد بن سلمان کو جواب دہی سے فرار یقینی بنا دیا ہے جب کہ صدر اس سے پہلے امریکی عوام سے سعودی ولی عہد کو جواب دہ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کا وعدہ کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں جو بائیڈن حکومت نے جو کیا ہے ایسا تو ٹرمپ کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔