پانچ لاکھ سال پہلے کا ابتدائی انسان اس سے کہیں زیادہ ذہین تھا جتنا کہ ماہرین کا خیال تھا۔ اس کا انکشاف افریقی ملک زیمیبا کے شمالی حصے میں کالمبو آبشار کے پاس کھدائی کے دوران لکڑی کی مچان یا پلیٹ فارم کی دریافت سے ہوا۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق پانچ لاکھ پہلے کا انسان لکڑی کے صرف دو استعمال جانتا تھا، اول اس سے آگ جلانا اور دوسرا اسے اپنی حفاظت یا شکار کے لیے استعمال کرنا۔
اب تک دریافت شدہ شواہد کے مطابق تقریباً سات لاکھ سال پہلے انسان نے آگ جلانا اور اس پر کنٹرول کرنا سیکھ لیا تھا۔اسرائیل میں واقع قیسم غار سے ملنے والے آثار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ لگ بھگ چار لاکھ سال پہلے اس غار میں رہنے والے انسان آگ جلاتے تھے اور اس پر گوشت بھون کر کھاتے تھے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ماضی قدیم میں کالمبو آبشار کے علاقے میں، انسان کی ابتدائی نسل، جسے ہومو کہا جاتا ہے , کا آنا جانا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب انسان خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتا تھا اور خوراک اور شکار کی تلاش میں سفر کرتا رہتا تھا۔
انسان نے کسی ایک جگہ پر مستقل رہنا، اور بستیاں بسانا اس وقت شروع کیا جب اس نے فصلیں اگانا سیکھا اور اپنی خوراک خود پیدا کرنے کے قابل ہوا ۔قدیم انسانی بستیوں کے نشانات ان جگہوں پر ملے ہیں جہاں کھیتی باڑی کی علامتیں بھی موجود ہیں۔ یہ ایسے مقامات ہیں جہاں پانی بھی تھا جو انسان اور فصلوں، دونوں کی بقاکے لیے ضروری ہے۔
اب تک دریافت ہونے والی قدیم ترین انسانی آبادی کے آثار تقریباً 20 ہزار سال پرانے ہیں جو اسرائیل کے آثار قدیمہ کے ایک علاقے سے ملے ہیں۔اسرائیل اور افریقہ دو ایسے خطے ہیں جہاں قدیم انسان کی سرگرمیوں کی زیادہ تر نشانیاں اور باقیات دریافت ہوئی ہیں۔
کالمبو آبشار کے قریب دریافت ہونے والی لکڑی کی یہ مچان نسبتاً بہتر حالت میں ہے جس کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے قدرتی ماحول نے اسے محفوظ رکھنے میں کردار ادا کیا ہے۔
مچان کی قدامت کا اندازہ ایک جدید سائنسی طریقے سے لگایا گیا ہے جس میں یہ تعین کیا جاتا ہے کہ اس پر سورج کی روشنی آخری بار کب پڑی تھی۔ جس سے یہ ظاہر ہوا کہ مچان کم ازکم چار لاکھ 76 ہزار سال پرانی ہے۔
یہ وہ دور تھا جب انسان نوکیلے پتھروں کو شکار وغیرہ کے لیے استعمال کرتا تھا۔ مچان کے مقام سے پتھر کے اوزار بھی ملے ہیں جس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ لکڑی کے ٹکڑوں سے مچان بنانے کے لیے ان کا استعمال کیا گیا ہو گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ غالباً کالمبو آبشار کا مچان یا پلیٹ فارم پانی کے اوپر بنایا گیا ہو گا اور یہ خانہ بدوش انسانوں کا عارضی ٹھکانہ رہا ہو گا کیونکہ اس وقت تک انسان نے کاشت کاری شروع نہیں کی تھی۔
اس دریافت سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس دور کے انسان کی دماغی صلاحیتوں میں اضافہ ہو رہا تھا اور اس نے اپنے گرد و پیش پر غور کرنا اور اس میں سے اپنے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے طریقوں پر دھیان دینا شروع کیا
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ارتقا کے لاکھوں برسوں کے دوران انسان کے دماغ کی ساخت اور حجم میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ابتدائی ا نسان کے سر چھوٹے اور دماغ کا وزن کم ہوتا تھا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ دماغ کا سائز بڑا ہونے پر اس کی دماغی صلاحیتیوں اور سوچ کی وسعت میں اضافہ ہوا، جس نے اسے باقی جانداروں سے افضل بنا دیا۔
ارتقا ایک مسلسل عمل ہے۔ جب تک بچے پیدا ہوتے رہیں گے اور نسل آگے بڑھتی رہے گی، انسان کی جسمانی ساخت اور صلاحیتوں میں تبدیلی آتی رہے گی۔ لیکن یہ عمل اس قدر سست ہے کہ ایک ہزار سال میں ما سوائے بالوں اور آنکھوں کی رنگت ، قد کاٹھ اور رہن سہن کے انداز کے، کوئی قابل ذکر فرق نہیں پڑتا۔ اور ان تبدیلیوں کی وجہ بھی خوراک اور موسمی حالات ہوتے ہیں۔
کالمبو آبشار کے قریب سے دریافت ہونے والی لکڑی کے پلیٹ فارم کے متعلق برطانیہ کی یونیورسٹی لیور پول کے ایک ماہر آثار قدیمہ اور اس تحقیق کے مصنف لیری برہام کہتے ہیں کہ ان کے علم کے مطابق ، اس سے قبل دریافت ہونے والا لکڑی کا قدیم ترین ڈھانچہ تقریباً 9 ہزار سال پرانا ہے، جب کہ موجودہ دریافت اس سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔
کالمبو کے مقام پر آثار قدیمہ کے ماہرین 1950 اور بعد ازاں 1960 کی دہائیوں میں بھی کھدائی کر چکے ہیں، جس میں زمانہ قدیم میں انسان کے استعمال میں رہنے والی لکڑیوں کے آثار ملے تھے، لیکن اس وقت یہ تعین نہیں ہو سکا تھا کہ وہ کتنی پرانی ہیں۔
لیکن اس بار "لومی نیسنس ڈیٹنگ" کے استعمال سے، جس سے آخری بار سورج کی روشنی کے سامنے آنے کے وقت کا کھوج لگایا جاتا ہے، لکڑی کی قدامت کا تعین کیا گیا۔
موجودہ دور کے انسان کے آباؤ اجداد، جنہیں جدید انسان کہا جاتا ہے ہومو نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ ماہرین بشریات کا کہنا ہے کہ ہومو کے ارتقا کا سراغ تقریباً سات سے دس لاکھ قبل ملتا ہے۔ لیکن اس نسل کی دریافت ہونے والی باقیات تین لاکھ سال تک پرانی ہیں۔ان کا وطن براعظم افریقہ تھا جہان سے وہ نقل مکانی کرکے دنیا بھر میں پھیل گئے۔ ان کا یہ سفر بنیادی طور پر خوراک کی تلاش کے لیے تھا اور زیادہ تر یہ سفر ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ ہوا۔ انہوں نے ایک براعظم سے دوسرے براعظم جانے کے لیے خشکی کی راہداریاں استعمال کیں۔
پروفیسر لیری برہام کہتے ہیں کہ کالمبو آبشار میں لکڑی کے قدیم پلیٹ فارم کی دریافت یہ ظاہر کرتی ہے کہ پانچ لاکھ سال پہلے کا انسان اپنی زندگی میں آسانیاں لانے کے لیے اپنے اردگرد کے ماحول کو تبدیل کرنے کا شعور رکھتا تھا۔اور وہ ایسی چیزیں تخلیق کرسکتا تھا جو اس سے پہلے اس نے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ مثال کے طور پر لکڑی کا مچان، جس پر بیٹھ کر وہ پانی کا نظارہ کرتا ہو گا یا ممکن ہے کہ وہ اسے پانی کے بہاؤ سے بچنے کے لیے استعمال کرتا ہو۔
لکڑی کی پانچ لاکھ سال پرانی مچان کی دریافت انسان کے تجسس اور غو رو فکر کی کہانی بھی بیان کرتی ہے کہ اس نے اپنے گردو پیش کو پرکھا، اور اس پر غور و فکرکیا، جس نے اس کے لیے نئی راہیں کھول دیں اور لکڑی کی مچان سے شروع ہونے والا یہ سفر دراز ہو کر خلا کی وسعتوں تک پھیل گیا۔
فورم