چین کے شہر ووہان کے اسپتالوں میں کرونا وائرس کا کوئی مریض موجود نہ ہونے کے حکومتی اعلان کے بعد بعض شہریوں نے حکومتی دعووں پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
ووہان سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نے سوشل میڈیا میسیجنگ سروس کے ذریعے وائس آف امریکہ کو حکومتی اعلان پر اپنے تحفظات سے متعلق بتایا۔
شہری مسٹر ینگ (تحفظ کے پیشِ نظر فرضی نام) نے بتایا کہ "درست معلومات تک رسائی جو چین کے شہریوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس تناظر میں مجھے یقین ہے کہ یہ حکومت کا سیاسی ڈرامہ ہے۔"
اُن کے بقول حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ صحت یاب مریضوں کا ٹیسٹ اگر دوبارہ مثبت آ جائے تو اُنہیں علاج کی ضرورت نہیں۔
مسٹر ینگ نے بتایا کہ یہ محض ایک سیاسی ڈرامہ ہے۔ کیوں کہ چین میں فیکٹریاں بند ہونے سے حکمراں جماعت کی ساکھ پر منفی اثر پڑا ہے۔ لہذٰا وہ ایسے اعلانات کر کے شہریوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
چین کے قومی ہیلتھ کمیشن کے عہدے دار جیان یاہوئی نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ ووہان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد صرف 47 ہے جن میں سے 30 میں وبا کی کوئی علامات نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی اُن کے ٹیسٹ مثبت آ رہے ہیں۔ لہذٰا اُنہیں علاج کی ضرورت نہیں۔
البتہ، ووہان یونیورسٹی کے بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ کے عہدے دار کا کہنا ہے کہ طے کردہ ضابطے کے مطابق جب تک ان مریضوں کے ٹیسٹ مسلسل دو بار منفی نہیں آ جاتے۔ اُنہیں اسپتال سے ڈسچارج نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن پیر کو ہوبے اور ووہان کے محکمۂ صحت کے حکام کا یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ صوبے کے مختلف شہروں اور ووہان میں کرونا کا کوئی مریض زیرِ علاج نہیں ہے۔
پیر تک جاری کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے ہوبے میں 68 ہزار 128 کیس رپورٹ ہوئے جب کہ وائرس سے 4512 مریض ہلاک ہوئے۔ باقی ماندہ مریضوں کو اسپتالوں سے ڈسچارج کیا گیا۔ ہلاک ہونے والے میں 3869 کا تعلق ووہان شہر سے تھا۔
چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ ووہان شہر میں وائرس سے 46464 مریض متاثر ہوئے۔ جن میں سے آخری مریض کو جمعے کو اسپتال سے فارغ کیا گیا۔
صحت یاب ہونے والے متعدد افراد کے کرونا وائرس ٹیسٹ اب بھی مثبت آ رہے ہیں۔ لہذٰا عوامی حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ یہ دوبارہ وائرس پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
چین کی معروف مائیکر بلاگنگ ویب سائٹ 'ویبو' پر صارفین نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے حکومت کی کاوشوں کا تذکرہ کیا۔ وہیں کئی افراد نے حکومتی دعووں پر شک کا اظہار بھی کیا۔
تبت کے ایک رہائشی نے ان حکومتی دعووں پر لکھا کہ "براہِ مہربانی الفاظ کے ہیر پھیر سے اجتناب کریں۔"
شنگھائی کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ "اتنی جلدی کیا ہے۔ اپنے اعداد و شمار درست کریں۔ مریضوں کو جلد بازی میں اسپتالوں سے ڈسچارج کر کے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
ووہان کے ایک صارف نے لکھا ہے کہ اُن کے گھر کے قریب صحت یاب ہونے والے ایک شخص کا کرونا ٹیسٹ دوبارہ مثبت آیا ہے۔ ایک اور شہری کا کہنا ہے کہ اُن کی رہائش گاہ کے قریب دو افراد میں کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ جس کے بعد اُنہیں گھر سے کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ چین کی حکومت نے ووہان شہر میں حفاظتی اقدامات کے تحت معمولات زندگی بحال کر دیے ہیں۔
ووہان شہر کے گردو نواح سے بھی کچھ افراد نے ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پیغام بھیجنے والے ایک اور شہری نے لکھا کہ کیا میں اکیلا ہوں جو یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ سب 'کور اپ' ہے۔
کرونا وائرس سے متاثرہ مریض کی بیٹی نے امریکی جریدے 'اپیک ٹائمز' کو بتایا کہ اُن کے والد اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہیں۔ لیکن اُن تک رسائی کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
اُن کے بقول "ہمیں بتایا گیا کہ ٹیسٹ منفی آیا ہے۔ لیکن رپورٹ ہمیں نہیں دکھائی گئی۔ والد کو نمونیہ کی علامات پر اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔"
خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں۔ جس میں وہ یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ چین نے وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق حقائق کو چھپایا۔
صدر ٹرمپ کا یہ بھی گلہ رہا ہے کہ چین نے وبا سے متعلق بہت تاخیر سے آگاہ کیا۔ لہذٰا وہ چین کے خلاف تحقیقات اور ہرجانے کے دعوے پر غور کر رہے ہیں۔
البتہ، چینی حکام امریکی الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
شنگھائی کی ایک صحافی ژینگ ژن نے بتایا کہ وہ یکم فروری سے کرونا وائرس پر رپورٹنگ کر رہی ہیں۔ لہذٰا اُنہیں لگتا ہے کہ اسپتال میں کوئی مریض نہ ہونے کا حکومتی دعویٰ درست نہیں ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ اُن کی ایک مریض سے گفتگو ہوئی، جس کا ٹیسٹ نو مرتبہ منفی آیا تھا۔ لیکن اُنہیں مسلسل بخار اور سانس لینے میں تکلیف تھی۔
چین میں ہیلتھ رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے رکن ینگ ژینکنگ کا کہنا ہے کہ چین میں وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کے سات گھرانوں نے ووہان کی حکومت کے خلاف ہرجانے کے دعوے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس میں سے دو نے پولیس کے دباؤ اور ہراساں کرنے پر یہ فیصلہ واپس لے لیا ہے۔
ان افراد کو گلہ ہے کہ ووہان کی حکومت نے علاج کے حوالے سے اُنہیں گمراہ کیا۔ جس کے باعث اُن کے پیاروں کی ہلاکت ہوئی۔
ینگ جو اب امریکہ میں مقیم ہیں، نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جن افراد نے حکومت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا ارادہ کیا۔ اُنہیں پولیس کی جانب سے نہایت ظالمانہ طریقے سے ڈرایا دھمکایا گیا۔ لیکن اُن کے بقول اب بھی پانچ خاندان مقدمہ دائر کرنے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔
ینگ کا کہنا تھا کہ انصاف کی جیت صرف اسی صورت ہو گی جب شہری انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ لہذٰا وہ ایسے گھرانوں کی ہر ممکن مدد کریں گے۔