اتوار کو یمن کی افواج نے ملک کے دارالحکومت صنعاٴ میں ہونے والے ایک بڑے حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے پر فائر کھول دیا جس کے باعث کم از کم 17افراد زخمی ہوگئے، جِن میں سےکم از کم ایک شخص ہلاک ہوگیا۔
شوٹنگ کا یہ واقعہ یمنی صدر علی عبد اللہ صالح کی طرف سے ملک کے ٹیلی ویژن پر متوقع خطاب سے ایک گھنٹہ قبل پیش آیا۔ سعودی عرب میں تین ماہ قیام کےبعد مسٹر صالح جمعے کو غیرمتوقع طور پرملک واپس ہوئے۔ جون میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعدوہ علاج کے لیےہمسایہ سعودی عرب کے ایک اسپتال میں داخل رہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اتوار کو فوجیوں نے مظاہرین پر اُس وقت فائر کھول دیا جب وہ بَری افواج کے ہیڈکوارٹرز کے قریب سے گزر رہے تھے۔
صنعاٴ کے ’چینج اسکوائر‘ پرہونے والے دیگر مظاہروں میں سینکڑوں افرادنے شرکت کی۔ یہ مقام دارلحکومت میں حکومت مخالف مظاہروں کا گڑھ بن چکا ہے۔ مظاہرین نے گذشتہ ہفتے ہلاک ہونے والوں کے لیے فاتحہ خوانی کی ۔ ہلاکت کا یہ واقعہ، جنوری سے اب تک ہونے والے واقعات میں سب سے زیادہ سنگین نوعیت کا تھا۔
دریں اثنا ، امریکی محکمہٴ خارجہ نے یمن کی صورتِ حال پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہفتے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں تمام فریقین پرانتہائی تحمل سے کام لینے پر زور دیا گیا ہے۔ بیان میں صدر صالح سے مطالبہ کیا گیا ہےکہ اقتدار کے مکمل تبادلے کا آغازکریں اور اِسی سال کےاواخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا بندوبست کیا جائے۔