یمن کی حکومت نے حوثی باغیوں پر امن عمل کی پاسداری نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے منگل کو اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا۔
یمن کے وزیر خارجہ عبدالمالک المخالفی نے کویت میں ہونے والے امن مذاکرات کو "وقت کا زیاں" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حوثی شراکت اقتدار پر اصرار کر رہے ہیں جبکہ وہ سلامتی کونسل کی قرار داد کو نہیں مانتے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے معاملات بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں۔
وزیر خارجہ نے یمن میں حوثیوں پر عارضی جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ مذاکرات کو اپنے آپ کو دوبارہ مسلح کرنے اور مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
حوثی باغیوں کی طرف سے امن مذکرات کے معطل ہونے کے بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے 2014 میں دارالحکومت صنعا پرقبضہ کر لیا تھا جس کے بعد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو سعودی عرب منتقل ہونا پڑا تاہم اب وہ ساحلی شہر عدن میں واپس آ گئی ہے۔
یمن میں زمینی لڑائی اور سعودی عرب کی قیادت میں حوثیوں پر ہونے والی فضائی کارروائیوں کی وجہ سے یہاں انسانی المیہ پیدا ہو گیا ہے اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد یمنی شہریوں کو فوری طور پرخوراک اور طبی امداد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار نے منگل کو یمن کی امداد کے لیے عالمی ردعمل کو "افسوسناک حد تک کم قرار" دیا۔ جان گنگ نے نیویارک میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ یمن میں انسانی ہمدردی کے لیے 2016 کے لیے درکار ایک ارب 80 کروڑ ڈالر میں سے صرف 16 فیصد ہی مل سکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یمنی شہری ان بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں جو آسانی سے بنیادی ادویہ اور طبی سامان سے بچائی جا سکتی ہیں اور انہوں نے یمن کے تمام فریقوں سے براہ راست اپیل کی کہ عام شہریوں کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔