پاکستان میں اِن دِنوں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد حکومت کے نافذ کیے گئے لائسنسنگ کے نئے طریقہ کار کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ اِس احتجاج میں فارغ التحصیل ہونے والے طب کے نئے طلبا اور طالبات بھی شامل ہیں۔
احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں اور ڈینٹل سرجنز کا مؤقف ہے کہ حکومت کا ڈاکٹروں کے اندراج اور لائسنس دینے کا طریقہ کار درست نہیں۔ اس صورت میں ان پر ایک اور امتحان نافذ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) سمجھتا ہے کہ حکومت ملک بھر میں ڈاکٹروں کو ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے۔
واضح رہے ملک بھر میں ڈاکٹروں کی رجسٹریشن اور انہیں لائسنس دینے کے لیے وفاقی سطح پر ایک سرکاری ادارہ 'پاکستان میڈیکل کمیشن' قائم ہے۔ یہ ادارہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن کے تحلیل ہونے کے بعد قائم کیا گیا تھا۔
سینئر آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر اعجاز احمد بتاتے ہیں کہ پی ایم سی ملک بھر میں تمام ڈاکٹروں کی رجسٹریشن کا ادارہ ہے۔ جس میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور دانتوں کے ڈاکٹر شامل ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سادہ الفاظ میں یہ ادارہ ڈاکٹروں کو کام کرنے کے لیے لائسنس جاری کرتا ہے۔
پی ایم سی کے صدر ارشد تقی بتاتے ہیں کہ پی ایم ڈی سی کی تحلیل کے بعد 2020 میں پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ بنایا گیا تھا۔ جس کی ایک شق ہے کہ میڈیکل گریجویٹس (ایم بی بی ایس) کو ہاؤس جاب کے بعد لائسنس کے حصول کے لیے امتحان دینا ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایم سی کے صدر ارشد تقی نے کہا کہ پہلے امتحان صرف وہ طلبہ تھے جو دوسرے ممالک سے طب کی تعلیم حاصل کر کے پاکستان آتے تھے۔ اِس قانون کے بعد یہ امتحان سب کے لیے لازمی کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر لائسنس کے حصول کے لیے ضروری کیے گئے اس امتحان کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
صوبۂ پنجاب میں ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر دانش اعوان کے مطابق حکومت نے بغیر کسی پیشگی تیاری کے 'نیشنل لائسنسنگ ایگزام' (این ایل ای) شروع کیا ہے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان کے ڈاکٹر لائسنس کے لیے ایسا کوئی امتحان دیے بغیر ہی مریضوں کا علاج کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ڈاکٹر دانش اعوان بتاتے ہیں کہ پہلے جب کوئی طالب علم ایم بی بی ایس کا فائنل ائیر پاس کرتا تھا تو اسے عبوری یا پروویژنل لائسنس ملتا تھا۔ جس کے بعد ہاؤس جاب مکمل کرنے پر مستقل لائسنس مل جاتا تھا۔
نئے امتحان کا مقصد کیا ہے؟
پی ایم سی کے صدر ارشد تقی کا کہنا ہے کہ امتحان کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی ڈاکٹر اپنی گریجویشن، ہاؤس جاب اور تربیت مکمل کرنے کے بعد ہی لائسنس حاصل کر رہا ہے۔ وہ ایک مستند ڈاکٹر ہے جو روزانہ کی بنیاد پر علاج معالجے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ارشد تقی سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کا ایک مخصوص گروپ اِس امتحان کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔
دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر دانش کے بقول پی ایم سی کے فیصلوں کے سبب ملک میں ڈاکٹروں کی بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے پی ایم سی تاحال ڈاکٹروں کے لیے امتحان لینے کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکی۔
امتحانات میں اضافہ
ڈاکٹر دانش اعوان کے نزدیک 'این ایل ای' سے ڈاکٹروں کے امتحانات میں ایک اور امتحان کا اضافہ ہو گیا ہے کیوں کہ ان کے بقول اگر پی ایم سی اِس امتحان کی بنیاد پر اسپیشلائزیشن کی تربیت فراہم کرے تو تمام ڈاکٹر بخوشی یہ امتحان دیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر 'این ایل ای' کو لازمی قرار دیا جاتا ہے تو پہلے کسی بھی ڈاکٹر کو ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد لائسنس کے حصول کے لیے امتحان دینا ہو گا اور اسپیشلائزیشن کے لیے ایک اور امتحان دینا ہوگا۔
پی ایم سی کے صدر ارشد تقی کا کہنا ہے کہ اِس امتحان کی ضرورت اِس لیے محسوس کی گئی تا کہ ملک بھر میں ڈاکٹروں کے لیے ایک معیار متعین کیا جاسکے۔
ان کے بقول یہ قانون بنانے والوں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹروں کے لیے معیار متعین کیا جائے۔ اِس بات کا فیصلہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے نہیں بلکہ قانون نے کیا ہے۔
پی ایم سی کے مطابق اِس وقت ملک بھر میں 170 میڈیکل اسکولز، کالجز اور جامعات ہیں۔ ہر سال پاکستان بھر میں تقریباً 19 ہزار ڈاکٹروں اور ڈینٹل ڈاکٹروں کے داخلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے 14 سے 15 ہزار ڈاکٹر اور ڈینٹل ڈاکٹر کامیاب ہوتے ہیں۔
پی ایم سی کے مطابق پاس ہونے والے ڈاکٹروں کی کچھ تعداد ایسی بھی ہوتی ہے جو لائسنس کے لیے درخواست نہیں دیتے۔ ان میں سے بعض دوسرے شعبوں میں اور بعض بیرونِ ملک چلے جاتے تھے۔
خیال رہے کہ جانوروں کے ڈاکٹروں (ویٹنری ڈاکٹر) کا اندراج پی ایم سی نہیں کرتا۔
لائسنس کی ضرورت کیوں ہے؟
پاکستان میڈیکل کمیشن کے صدر ارشد تقی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ایم بی بی ایس کے ختم ہونے اور ہاؤس جاب کے ختم ہونے کے درمیان ایک سال کی عملی مہارت تربیت (پریکٹیل اسکلز ٹریننگ) ہوتی ہے۔ جس میں ڈاکٹروں نے جو پڑھا ہوتا ہے وہ ماہر ڈاکٹروں کی زیرِ نگرانی اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔
ان کے بقول لائسنس کا اجرا ڈاکٹر کے تربیت یافتہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
وائی ڈی اے کے پنجاب کے صدر ڈاکٹر اعوان کا کہنا ہے کہ پریکٹس کے لیے لائسنس جاری کرنے کے لیے امتحان محض وقت کا ضیاع ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں کوئی بھی ایم بی بی ایس کرنے والا ڈاکٹر اپنی ہاؤس جاب پر توجہ دینے کی بجائے امتحان کی تیاری شروع کر دے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح اگر کوئی ڈاکٹر یہ امتحان پاس کرتا ہے تو اس کے بعد ایک اور امتحان ایف سی پی ایس پارٹ ون کی تیاری اور اُس کا امتحان سر پر ہوگا۔
دیگر ممالک میں ڈاکٹرو کے لائسنس کا اجرا کیسے ہوتا ہے؟
پی ایم سی کے صدر ارشد تقی بتاتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ڈاکٹروں کے لائسنس کے امتحان کو گریجویٹ امتحان سے الگ کیا جا رہا ہے۔ یہ امتحان صرف پاکستان کے لیے نہیں ہو رہا۔
ان کے مطابق ڈاکٹروں کو لائسنس دینے کا یہ امتحان امریکہ میں سب سے پہلے شروع کیا گیا۔ آئندہ برسوں میں یہ امتحان بھارت، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں شروع ہو گا جب کہ کئی ممالک میں اس کا آغاز ہوگیا ہے۔
ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر دانش اعوان کے مطابق کوئی بھی ملک اپنے حالات، آبادی، معیارِ تعلیم اور دیگر عوامل کے مطابق پالیسیاں بناتا ہے۔ پاکستان کو کسی دوسرے ملک کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر دانش اعوان کے مطابق امریکہ میں یہ امتحان دینے کے بعد کوئی بھی ڈاکٹر صرف انٹرویو دے کر کسی بھی فیلڈ میں کام کر سکتا یا اسپیشیلائزیشن کے لیے کام شروع کر دیتا ہے۔
اُن کے بقول اِسی طرح بھارت میں ہونے والا امتحان نیشنل ایگزٹ ٹیسٹ 2023 سے شروع ہو گا۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ فائنل ائیر کا امتحان لینے کی بجائے ٹیسٹ کا امتحان ہو گا۔ جو نیشنل بورڈ لے گا۔ اِسی کی بنیاد پر اسپیشلائزشن میں داخلہ ملے گا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا مؤقف
پاکستان بھر کے ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سمجھتی ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن ایک غیر آئینی اور غیر قانونی ادارہ ہے۔
ڈاکٹر اشرف نظامی الزام عائد کرتے ہیں کہ پی ایم سی کا موجودہ اقدام پیسے بنانے اور ڈاکٹروں کو دباؤ میں لانے کے لیے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چوں کہ یہ نظام امریکہ میں ہے اِس لیے پاکستان کے حکمران بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں بھی یہی کام ہونا چاہیے۔
ان کے مطابق پی ایم سی کی پالیسیاں ایسے لوگ بنا رہے ہیں جنہیں پاکستان کے معروضی حالات کا علم نہیں۔
ڈاکٹر کیا کریں گے؟
وائی ڈی اے پنجاب کے صدر ڈاکٹر دانش اعوان بتاتے ہیں کہ اِس سلسلے میں ڈاکٹر کمیونٹی کا لائحہ عمل بہت واضح ہے۔ یہ مسئلہ کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ قومی سطح کا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر کے ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم اِس بارے میں صلاح مشورہ کر رہی ہے تا کہ یکساں مؤقف اپنایا جا سکے۔
ڈاکٹر دانش اعوان نے اِس سلسلے میں وزیرِ اعظم پاکستان سے اپیل کی کہ وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھیں اور مداخلت کر کے معاملے کو حل کرائیں۔