پنجاب کے ضلع قصور میں سات سالہ بچی زینب کے زیادتی کے بعد قتل کے مجرم عمران علی کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے۔
عمران کو انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے زینب قتل کیس میں چار بار موت کی سزا سنائی تھی۔
مجرم نے اپنی سزا کے خلاف پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا لیکن دونوں اعلیٰ عدالتوں نے اس کی اپیل مسترد کردی تھی۔
عمران کی جانب سے صدرِ مملکت سے کی جانے والی معافی کی درخواست بھی مسترد ہونے کے بعد گزشتہ ہفتے اس کے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے گئے تھے جن پر بدھ کو علی الصباح لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں عمل درآمد کردیا گیا۔
مجرم کو پھانسی دیے جانے کے وقت زینب کے والد امین انصاری بھی موجود تھے۔
پھانسی کے بعد مجرم کی لاش قانونی کارروائی کے بعد اس کے ورثا کے حوالے کردی گئی جو اسے اپنے ساتھ قصور لے گئے۔
اس سے قبل منگل کو ملزم کی اس کے اہلِ خانہ سے آخری ملاقات کرائی گئی تھی۔
گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے عمران علی کو سرِ عام پھانسی دینے کی ایک درخواست مسترد کردی تھی۔
درخواست زینب کے والد امین انصاری نے دائر کی تھی جن کا موقف تھا کہ سرِ عام پھانسی دینے سے مستقبل میں بچوں کے ساتھ ایسے جرائم روکنے میں مدد ملے گی۔
تاہم پنجاب حکومت نے ان کی درخواست کی مخالفت کی تھی جس کی بعد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے یہ درخواست مسترد کردی تھی۔
سات سالہ زینب کو رواں برس جنوری میں پنجاب کے ضلع قصور سے اغوا کیا گیا تھا جس کے کچھ روز بعد اس کی لاش کچرے کے ایک ڈھیر سے ملی تھی۔
پوسٹ مارٹم سے زینب کے ساتھ زیادتی ثابت ہوگئی تھی۔ واقعے کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی جب کہ قصور میں واقعے کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
قصور واقعے کا چیف جسٹس آف پاکستان نے از خود نوٹس لیا تھا جس کے بعد پولیس نے فرانزک شواہد کی مدد سے چند روز بعد عمران علی کو گرفتار کرلیا تھا۔
تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا تھا کہ قصور میں ماضی میں دیگر سات بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات میں بھی عمران علی ہی ملوث تھا۔
عدالت نے دیگر سات بچیوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمے میں عمران علی کو مجموعی طور پر 21 بار موت کی سزا سنائی تھی۔