پاکستان کے صدر آصف علی زرداری جمعرات کو اسلام آباد سے دبئی روانہ ہوئے اور پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ایک روزہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ اس دورے کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں جبکہ سرکاری طور پر ایوان صدر سے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے صرف اتنا بتایا ہے کہ صدر زرداری نجی دورے پر دبئی گئے ہیں اور جمعہ کو وطن واپس آئیں گے۔
پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر زرداری طبی معائنے کے لیے گئے ہیں اور اپنے مختصر قیام کے دوران وہ شادی کی ایک تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔
گزشتہ ماہ بھی صدر زرداری اچانک دبئی چلے گئے تھے جہاں ایک امریکی اسپتال میں وہ دو ہفتوں تک عارضہ قلب کے باعث زیر علاج رہے تھے۔ اس وقت ملک میں ان کی غیر موجودگی نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا کہ میمو اسکینڈل کی وجہ سے سیاسی دباؤ کی وجہ سے صدر زرداری ملک سے باہر چلے گئے ہیں لیکن ان کی وطن واپسی پر یہ قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں۔ اس مرتبہ بھی وہ ایک ایسے وقت بیرون ملک گئے ہیں جب پاکستان میں فوج کے طاقتور ادارے کے ساتھ اُن کی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے تعلقات سخت تناؤ کا شکار ہیں۔
مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مں صدر زرداری کی بیرون ملک روانگی کو ان کے ماضی کے دبئی کے دورے کی طرح ایک بارپھر فوج اور حکومت کے درمیان کشیدگی سے جوڑا جا رہا ہے۔
لیکن حکمران پیپلز پارٹی کی ایک مضبوط اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے صحافیوں سے گفتگو میں اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کے دورے کا پچھلے 24 گھنٹوں میں فوج اور حکومت کے مابین ہونے والی کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔’’یہ تو پرسوں کے اخبار میں آیا تھا کہ صدر نے ایک دن کے لیے جانا ہے اپنے میڈیکل چیک اپ کے لیے چند گھنٹوں کا ہے شام تک واپس آئیں گے یہ تو اس سارے سے پہلے کا ہے۔‘‘
اس کشیدگی کی بنیادی وجہ امریکہ کو بھیجا گیا وہ متنازع ’میمو‘ یا مراسلہ ہے جس میں مبینہ طور پر صدر زرداری نے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا کو برطرف کرنے کے سلسلے میں واشنگٹن سے مدد مانگی گئی تھی۔
اس مراسلے کے حقائق جاننے کے لیے سپریم کورٹ کا تشکیل دیا گیا ایک عدالتی کمیشن تحقیقات کر رہا ہے۔ مگر عدالت کی ہدایت پر فوجی قیادت کی طرف سے داخل کرائے گئے بیانات حلفی پر پاکستان کی سیاسی قیادت سخت نالاں ہے کیونکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بقول جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی نے حکومت کی منظوری کے بغیر سپریم کورٹ کو براہ راست اپنے بیانات بھیجوا کر قوانین اورآئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
لیکن بدھ کی شام پاکستانی فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک غیرمعمولی بیان میں انتباہ کیا گیا ہے کہ فوجی قیادت پر آئین کی خلاف ورزی کے وزیر اعظم کے بیان کے ’’ضرر رساں نتائج‘‘ ہو سکتے ہیں۔
بعد ازاں وزیراعظم گیلانی نے صحافیوں کو بتایا کہ فوج کی جانب سے اس وضاحتی بیان کے اجرا سے قبل جنرل کیانی نے اُنھیں اس بارے میں مطلع کیا تھا۔ لیکن اُنھوں نے اپنے الزامات کو واپس نہیں لیا کیونکہ اُن کا اصرار تھا کہ ’’قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیئے‘‘۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اداروں کے مابین تصادم کی حامی نہیں لیکن وہ کسی غیر آئینی اقدام کی بھی حمایت نہیں کرے گی۔
ادھر اپوزیشن مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے بعد پارتی کے ایک مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ان کی جماعت بھی کسی غیر آئینی اقدام کے حق میں ہر گز نہیں۔’’ میں نہیں سمجھتا ہے کہ اس وقت کوئی بھی ذی شعور شخص کسی غیر آئینی تبدیلی کو ملک کے مسئلوں کا حل سمجھتا ہے بلکہ یہ ملک کو مزید دلدل میں پھینکنے کے مترداف ہے۔۔۔اور اگر ایسا کچھ ہوا تو ہم اس کے آگے بند باندھ سکتے ہیں، میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ موجودہ حکومت کا تسلسل ملک میں جمہوریت کے لیے، معیشت کے لیےاور عام آدمی کے لیے خطرات کا باعث ہے۔‘‘
پاکستانی فوج کی جانب سے وزیراعظم کے الزامات کے ردعمل میں جاری کیے گئے بیان کے بعد ملک میں فوجی بغاوت کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں لیکن مبصرین کی اکثریت کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ سول سوسائٹی اور میڈیا کی طرف سے بھی ایسے کسی بھی اقدام کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔