اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے اُنہیں نو ستمبر کو دوبارہ طلب کر لیا ہے۔
احتساب عدالت نے اسی کیس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی 25 اگست تک مؤخر کرنے کی درخواست بھی منظور کر لی ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت ہوئی تو آصف زرداری عدالت میں پیش ہوئے۔
آصف زرداری 12 دسمبر 2019 کو منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت پر رہائی کے بعد پہلی دفعہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے کرونا سے بچاؤ کے لیے فیس شیلڈ اور ماسک پہنا ہوا تھا۔
کمرۂ عدالت میں آصف علی زرداری کے وکیل اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی اور ایک موقع پر دونوں نے ایک دوسرے کو 'شٹ اپ' بھی کہا۔ تاہم عدالت نے دونوں فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی۔
توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت شروع ہوئی تو کمرۂ عدالت لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھیڑ کو دیکھتے ہوئے کہا کہ یہاں اتنا رش ہے پہلے ہی وبا پھیلی ہے۔
اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہاں میڈیا کو باتیں سنانے نہ آئیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں سینئر کونسل ممبر ہوں مجھے بھی عدالت میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا تھا۔ یہ ملٹری کورٹ نہیں اور نہ ہی ان کیمرا ٹرائل ہے۔ آصف زرداری بیمار ہیں، عدالت بھری ہوئی ہے۔ اگر آصف زرداری کو کرونا ہو گیا تو کون ذمہ دار ہو گا؟
سماعت کے دوران فریقین کے وکلا کے دلائل کے بعد عدالت نے آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، عبدالغنی مجید اور انور مجید کو فردِ جرم کے لیے نو ستمبر کو دوبارہ طلب کر لیا۔
عدالت نے آصف زرداری کو آئندہ سماعت پر استثنیٰ دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملزم خود پیش ہو۔
نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی ملتوی
دوسری جانب احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی بھی مؤخر کر دی ہے۔
نواز شریف کے وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون عدالت میں پیش ہوئے اور درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں احتساب عدالت کی کارروائی کو چیلنج کیا ہے جس کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔
اس پر عدالت نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی 25 اگست تک روکتے ہوئے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست منظور کر لی۔
نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے یا ٹرائل میں شامل کر کے فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ 25 اگست کو ہو گا۔
اسی کیس میں مفرور قرار دینے کے خلاف نواز شریف کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس موقع پر عدالت نے نواز شریف کی ضمانت پر کئی سوال اٹھائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نواز شریف کی دو اپیلیں زیرِ التوا تھیں۔ ان کی آٹھ ہفتے کی ضمانت کا کیا اسٹیٹس ہے؟
جس پر نوازشریف کے وکیل جہانگیر جدون نے کہا کہ ضمانت موجود ہے اور ہم نے پنجاب حکومت کو درخواست دی تھی لیکن ابھی آرڈر کی کاپی موجود نہیں۔
بینچ میں شامل جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے پنجاب حکومت کو کہا تھا نواز شریف کی ضمانت میں توسیع پر فیصلہ کریں۔ نواز شریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی ضمانت غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کی ضمانت منسوخ ہے تو اس پر نواز شریف کا اسٹیٹس کیا ہے؟ بظاہر اس عدالت کے فیصلے کی حد تک ملزم اشتہاری ہو چکا ہے۔
جسٹس عامر نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت ہے یا نہیں پہلے ہمیں یہ واضح کریں۔
عدالت نے سابق وزیرِ اعظم کی ضمانت کے اسٹیٹس جاننے کے لیے ریکارڈ طلب کر لیا اور حکم دیا کہ 20 اگست تک نواز شریف کی ضمانت کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے۔
توشہ خانہ ریفرنس ہے کیا؟
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے صرف 15 فی صد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔
نیب نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور قوانین کو نرم کیا۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ آصف زرداری کو ستمبر، اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو 750، ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007 اور لیبیا سے بی ایم ڈبلیو 760، ماڈل 2008 گاڑیاں تحفے میں ملیں۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق سابق صدر فوری طور پر ان گاڑیوں کی اطلاع دینے اور کابینہ ڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کرانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا اور نہ ہی اُنہیں جمع کرایا گیا۔
نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے طریقہ کار میں غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے نیشنل بینک آواری ٹاور کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کو ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی۔ ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کو مجموعی طور پر دو کروڑ تین لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔
نیب کا الزام ہے کہ خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے تین ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر رقم ادا کی۔
نیب نے ان افراد کو بدعنوانی کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے عدالت سے انہیں قرار واقعی سزا دینے کی استدعا کی ہے۔
توشہ خانہ ہوتا کیا ہے؟
پاکستان میں رائج قانون کے مطابق جب بھی کوئی حکمران یا بیوروکریٹ کسی سرکاری دورے پر بیرونِ ملک جائے اور اسے وہاں تحائف ملیں تو وہ وطن واپس آ کر یہ تحائف اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کراتا ہوت ہیں۔
سرکاری قوانین کے تحت سرکاری افسر، عوامی نمائندے یا مسلح افواج سے وابستہ کوئی بھی افسر سرکاری تحائف ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ یہ تحائف فی الفور کابینہ ڈویژن کے ماتحت سرکاری تحائف کی تحویل کے مرکز توشہ خانہ میں جمع کیے جاتے ہیں۔
اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
توشہ خانہ پاکستان بننے کے بعد وزارتِ خارجہ کے ماتحت تھا لیکن 1973 میں اسے کابینہ ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا تھا۔
صوبائی سطح پر ملنے والے سرکاری تحائف ایس اینڈ جی اے ڈی کے ماتحت کیبنٹ سیکشن کے پاس رکھے جاتے ہیں۔
کیبنٹ ڈویژن ایسے تحائف کی قیمت کا تعین کر کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے علاوہ ٹیکسلا میوزیم، نیشنل کونسل آف آرٹس، وغیرہ سے تحفے کی نوعیت کے حوالے سے رجوع کر سکتی ہے۔ پرائیویٹ سطح پر بھی تحائف کی قیمت جانچی جاسکتی ہے۔
قیمت کا تعین کرنے والی پرائیویٹ کمپنیاں ‘پاکستان جیولری اینڈ جم اسٹونز ایسوسی ایشن’ کی نامزد کردہ ہوتی ہیں۔
قوائد کے مطابق ایسا تحفہ جس کی مالیت 10 ہزار روپے تک ہو۔ وہ تحفہ کسی قیمت کے بغیر ہی تحفہ وصول کرنے والے کو دیا جا سکتا ہے۔
ایسا تحفہ جس کی مالیت 10 ہزار روپے سے زیادہ ہو وہ قیمت کا 15 فی صد ادا کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں چار لاکھ روپے یا اس سے زائد مالیت کا تحفہ صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم کے سوا کسی کو رعایتی قیمت پر نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے تحائف کو سال میں دو مرتبہ نیلامی میں فروخت کیا جاتا ہے اور خریداری کے لیے پہلی ترجیحی اسی فرد کو دی جاتی ہے جسے یہ تحفہ ملا ہوتا ہے۔
باقی بچ جانے والے تحائف عام نیلامی کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ نایاب اور نوادرات کا درجہ رکھنے والے تحائف عجائب گھر میں رکھے جاتے ہیں۔