عام تاثر کے برعکس، کچھ افریقی ممالک میں ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کا علاج زیادہ مہنگا نہیں ہے: بِل کلنٹن
واشنگٹن میں منعقدہ انیسویں بین الاقوامی ایڈز کانفرنس کا جمعے کےروز اختتام ہوا۔ وائس آف امریکہ کی سوزان پریسٹو نے اپنی رپوٹ میں بتایا ہے کہ اس چھ روزہ اجتماع کا موضوع ’ ایک ساتھ آگے بڑھنا ‘ تھا۔
اِس بین الاقوامی کانفر س میں 20000سےزائد وفود نے شرکت کی جس میں شو بز کی مشہور شخصیات سے لے کر اعلیٰ سطح کے سیاستدانوں اور اُن تحقیق کاروں نے شرکت کی جو ایڈز کے بارے کام کر رہے ہیں۔
سابق امریکی صدر بِل کلنٹن نےاختتامی اجلاس سے خطاب کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ عام تاثر کے برعکس، کچھ افریقی ممالک میں ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کا علاج زیادہ مہنگا نہیں ہے۔
اُن کی تنظیم ’دِی کلنٹن فاؤنڈیشن‘نے کئی افریقی ملکوں میں اپنی ایک جائزہ رپورٹ مکمل کی ہے، جِس میں اتھیوپیا، ملاوی، روانڈا اور زیمبیا شامل ہیں۔
اُن کے بقول، ایک اوسط مریض کےسال بھر کے علاج پر 200ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اِس میں دوائیوں، تجزیائی رپوٹوں، عملے اور اسپتال سے باہرکے مریضوں کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات شامل ہیں۔ لہٰذا، کوئی وجہ نہیں کہ ہم ضرورتمند ایک کروڑ مریضوں کو طبی امداد نہ فراہم کرسکیں۔
اُنھوں نے ایچ آئی وی کے چیلنج سے نبردآزما ہونے کےانتظامات پر روشنی ڈالی، جو ایڈز کا سبب بننے والا ایک وائرس ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ماں سے بچے کو وائرس کی منتقلی روکنے کے لیے ضرورت اِس بات کی ہے خواتین کے ٹیسٹ اور طبی امداد کو بروقت فراہم کیا جائے، اور نوزائدہ بچے کو دودھ پلانے کےطویل عرصے تک جاری رکھنے کا بندوبست کیا جائے، جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دوائی حاصل کرنا مشکل معاملہ ہے، کیونکہ عام طور پر مریض میلوں دور بستے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی حفظان صحت کے کارکنوں سےبات ہوئی ہے جو بتاتے ہیں کہ حاملہ خواتین اور ماؤں کے لیے میسر فنڈ ناکافی ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ 2015ء تک ماؤں سے بچوں کولگنے والے انفیکشن کے خاتمے کے ہدف کے حصول کے لیے وہ آٹھ کروڑ ڈالر کی اضافی امداد فراہم کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اِس سے قبل اِسی ہفتے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نےایڈز سے پاک نسل کےحصول کا عزم کیا ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اِس عہد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اُن کے بقول، ہم اِس تاریخی یادگار کوحاصل کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔
کانفرنس کے دوران تحقیق کاروں نے اپنی رپورٹیں پیش کیں جِن میں ایچ آئی وی کے مریضوں کا علاج کرنے کے لیے انفیکشن کے ابتدائی مرحلوں کےدوران علاج معالجے کے فوائد پر زور دیا گیا۔
اِن میں سے ایک تجزئےمیں فرانس میں ایچ آئی وی کے مریضوں کے ایک گروپ سے متعلق معلومات پیش کی گئی۔ ابتدائی مرحلے میں علاج کے ذریعے وائرس کے خلاف استعمال ہونے والی ادویات جلد اثر دکھاتی ہیں اور ایچ آئی وی انفیکشن دوبارہ ہونے کی علامات باقی نہیں رہتیں۔
مائیکل سدبی ایچ آئی وی / ایڈز سے متعلق اقوام متحدہ کے پروگرام کے انتظامی سربراہ
ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ علاج کے سلسلے میں ابھی مزید تحقیق ہونا باقی ہے۔
سرگرم کارکنوں نے اجلاسوں اور مباحثوں کے دوران رخنہ اندازی کی کوشش کی۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ تحقیق، ایچ آئی وی اور ایڈز کے مریضوں کے علاج کے لیے زیادہ رقوم مختص کی جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ’ ایڈز کو ختم کیا جا سکتا ہے‘۔
اجلاس میں شریک ایک فردنے، جو ایچ آئی وی کا مریض تھا، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اِس جذبے کو دیکھ کر اُن کا حوصلہ بڑھا ہے۔
انیسویں بین الاقوامی ایڈز کانفرنس بائیس برسوں میں پہلی بار امریکہ میں منعقد ہوئی، جس سے قبل صدر براک اوباما نے ایچ آئی وی کے مریضوں کے ملک میں داخلے پر عائد پابندیاں ہٹا لی تھیں۔
کانفرنس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اب بھی دنیا کے 46ممالک ، علاقے اوررقبے ایسے ہیں جہاں ایچ آئی وی کے مریضوں کے سفر پر پابندیاں عائد ہیں۔
بیسویں بین الاقوامی ایڈز کانفرنس جولائی 2014ء میں آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں منعقد ہوگی۔
اِس بین الاقوامی کانفر س میں 20000سےزائد وفود نے شرکت کی جس میں شو بز کی مشہور شخصیات سے لے کر اعلیٰ سطح کے سیاستدانوں اور اُن تحقیق کاروں نے شرکت کی جو ایڈز کے بارے کام کر رہے ہیں۔
سابق امریکی صدر بِل کلنٹن نےاختتامی اجلاس سے خطاب کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ عام تاثر کے برعکس، کچھ افریقی ممالک میں ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کا علاج زیادہ مہنگا نہیں ہے۔
اُن کی تنظیم ’دِی کلنٹن فاؤنڈیشن‘نے کئی افریقی ملکوں میں اپنی ایک جائزہ رپورٹ مکمل کی ہے، جِس میں اتھیوپیا، ملاوی، روانڈا اور زیمبیا شامل ہیں۔
اُن کے بقول، ایک اوسط مریض کےسال بھر کے علاج پر 200ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اِس میں دوائیوں، تجزیائی رپوٹوں، عملے اور اسپتال سے باہرکے مریضوں کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات شامل ہیں۔ لہٰذا، کوئی وجہ نہیں کہ ہم ضرورتمند ایک کروڑ مریضوں کو طبی امداد نہ فراہم کرسکیں۔
اُنھوں نے ایچ آئی وی کے چیلنج سے نبردآزما ہونے کےانتظامات پر روشنی ڈالی، جو ایڈز کا سبب بننے والا ایک وائرس ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ماں سے بچے کو وائرس کی منتقلی روکنے کے لیے ضرورت اِس بات کی ہے خواتین کے ٹیسٹ اور طبی امداد کو بروقت فراہم کیا جائے، اور نوزائدہ بچے کو دودھ پلانے کےطویل عرصے تک جاری رکھنے کا بندوبست کیا جائے، جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دوائی حاصل کرنا مشکل معاملہ ہے، کیونکہ عام طور پر مریض میلوں دور بستے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی حفظان صحت کے کارکنوں سےبات ہوئی ہے جو بتاتے ہیں کہ حاملہ خواتین اور ماؤں کے لیے میسر فنڈ ناکافی ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ 2015ء تک ماؤں سے بچوں کولگنے والے انفیکشن کے خاتمے کے ہدف کے حصول کے لیے وہ آٹھ کروڑ ڈالر کی اضافی امداد فراہم کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اِس سے قبل اِسی ہفتے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نےایڈز سے پاک نسل کےحصول کا عزم کیا ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اِس عہد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اُن کے بقول، ہم اِس تاریخی یادگار کوحاصل کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔
کانفرنس کے دوران تحقیق کاروں نے اپنی رپورٹیں پیش کیں جِن میں ایچ آئی وی کے مریضوں کا علاج کرنے کے لیے انفیکشن کے ابتدائی مرحلوں کےدوران علاج معالجے کے فوائد پر زور دیا گیا۔
اِن میں سے ایک تجزئےمیں فرانس میں ایچ آئی وی کے مریضوں کے ایک گروپ سے متعلق معلومات پیش کی گئی۔ ابتدائی مرحلے میں علاج کے ذریعے وائرس کے خلاف استعمال ہونے والی ادویات جلد اثر دکھاتی ہیں اور ایچ آئی وی انفیکشن دوبارہ ہونے کی علامات باقی نہیں رہتیں۔
مائیکل سدبی ایچ آئی وی / ایڈز سے متعلق اقوام متحدہ کے پروگرام کے انتظامی سربراہ
ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ علاج کے سلسلے میں ابھی مزید تحقیق ہونا باقی ہے۔
سرگرم کارکنوں نے اجلاسوں اور مباحثوں کے دوران رخنہ اندازی کی کوشش کی۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ تحقیق، ایچ آئی وی اور ایڈز کے مریضوں کے علاج کے لیے زیادہ رقوم مختص کی جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ’ ایڈز کو ختم کیا جا سکتا ہے‘۔
اجلاس میں شریک ایک فردنے، جو ایچ آئی وی کا مریض تھا، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اِس جذبے کو دیکھ کر اُن کا حوصلہ بڑھا ہے۔
انیسویں بین الاقوامی ایڈز کانفرنس بائیس برسوں میں پہلی بار امریکہ میں منعقد ہوئی، جس سے قبل صدر براک اوباما نے ایچ آئی وی کے مریضوں کے ملک میں داخلے پر عائد پابندیاں ہٹا لی تھیں۔
کانفرنس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اب بھی دنیا کے 46ممالک ، علاقے اوررقبے ایسے ہیں جہاں ایچ آئی وی کے مریضوں کے سفر پر پابندیاں عائد ہیں۔
بیسویں بین الاقوامی ایڈز کانفرنس جولائی 2014ء میں آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں منعقد ہوگی۔