مرنے والوں کی بیاسی لاشیں ناقابل شناخت ہیں جن کو ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا
سانحہ کراچی کے تیسرے روز جہاں شہر کے مختلف علاقوں سے جنازے اٹھتے رہے وہیں متاثرہ فیکٹری میں لوگ ابھی تک اپنے لاپتہ پیاروں کو تلاش کرتے رہے۔ ادھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ، ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور وزیراعلیٰ سندھ نے آتشزدگی کا شکارہونے والی فیکٹری کا دورہ کیا ۔
بیاسی لاشیں ناقابل شناخت
محکمہ صحت کے مطابق سانحہ کراچی میں جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد دو سو انسٹھ ہے ، جس میں دو سو چھتیس مرد اور تیئس خواتین شامل ہیں ۔ مرنے والوں کی بیاسی لاشیں ناقابل شناخت ہیں جن کو ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا ۔
تیسرے روز بھی پیاروں کی تلاش
جمعرات کوسانحہ کراچی کا تیسرا روز تھا ۔ فیکٹر ی میں پھنسے اپنے پیاروں کی تلاش میں لواحقین صبح سے ہی سرگرداں ہوگئے اور انہوں نے خود امدادی کارروائیاں شروع کر دیں ۔ نوجوان، لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے کیلئے فیکٹری میں داخل ہو گئے جبکہ جنریٹر کیلئے پیٹرول چندہ جمع کر کے لایا گیا ۔
فیکٹری کے باہر ایک بوڑھی خاتون کو اپنے بیٹے شعیب کی تلاش تھی ۔ خاتون نے بتایا کہ شعیب کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔اسے پندرہ دن پہلے ہی اس فیکٹری میں ملازمت ملی تھی ۔ کاش مجھے پتہ ہوتا کہ یہ سب کچھ ہونا ہے تو میں اسے روک لیتی ۔خاتون کا کہنا تھا کہ ان کی دو راتیں فیکٹری کے باہر گزر گئیں لیکن شعیب کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں ۔
ادھر ایدھی سینٹر کے باہر کھڑے ایک معذور شخص دلاور کا کہنا تھا کہ میرا دس بارہ سال کا ہے۔ اس کا نام عزیز تھا اور وہ بھی اسی فیکٹری میں کام کرتا تھا ۔ اب تک اس کا کچھ پتہ نہیں ۔ایدھی سینٹر کے باہر رات سے کھڑا ہوں ، جو لاش آتی ہے ،دل نکل جاتا ہے کہ یہ کہیں عزیز کی نہ ہو ،ڈرتے ڈرتے اس کا منہ دیکھتا ہوں ۔
نماز جنازہ و تدفین
بلدیہ ٹاوٴن کے علاقے دہلی کالونی کا شاہد ہی کوئی گھر ایسا ہوگا جس کا کوئی نہ کوئی فرد اس حادثے سے کسی طرح متاثر نہ ہوا ہو۔ادھر شہر کے دیگر علاقوں میں بھی جن لاشوں کو ورثا ء کے حوالے کیا گیا ان کی تدفین ہوتی رہی جبکہ دیگر شہروں کے جاں بحق ملازمین کو ان کے آبائی گھروں کو روانہ کیا گیا ۔
ایدھی سرد خانے سے ایک ہی خاندان کی آٹھ لاشوں کوبھی ان کے آبائی شہر مظفر گڑھ کیلئے روانہ کیا گیا ۔
فکر انگیز پہلو
اس سانحہ میں سب سے فکر انگیز اور سبق آموز پہلو یہ ہے کہ ایسے سانحہ میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بیک وقت جھلسے ہوئے ساٹھ، ستر لوگوں سے زائد کا علاج ممکن نہیں ۔ سول اسپتال واحد ادارہ ہے جس میں برن سینٹر اور آئی سی یو ہے جبکہ دوسرے بڑے اسپتالوں جناح اور عباسی میں جھلسے مریضوں کیلئے علاج کا کوئی الگ وارڈ موجود نہیں ۔
سیاسی رہنماؤں کا دورہ
سانحہ کراچی میں جاں بحق ہونے والوں کو خراج عقید ت پیش کرنے کیلئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اراکین نے آج بھی فیکٹری کا دورہ کیا۔ پھول چڑھائے اور شمعیں روشن کیں ۔ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ واقعہ کو قومی سانحہ قرار دیا جائے اور اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائیں ۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی آج جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی گئی ہے، ذمہ داران کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی تباہ شدہ فیکٹری کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ لواحقین کو فوری معاوضہ دیا جائے اور غفلت برتنے پر کارروائی کی جائے۔
ادھر شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی بدقسمت فیکٹری دیکھی اور اس کے باہر شمیں روشن کر کے جاں بحق ہونیوالوں کو خراج عقید پیش کیا۔
بیاسی لاشیں ناقابل شناخت
محکمہ صحت کے مطابق سانحہ کراچی میں جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد دو سو انسٹھ ہے ، جس میں دو سو چھتیس مرد اور تیئس خواتین شامل ہیں ۔ مرنے والوں کی بیاسی لاشیں ناقابل شناخت ہیں جن کو ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا ۔
تیسرے روز بھی پیاروں کی تلاش
جمعرات کوسانحہ کراچی کا تیسرا روز تھا ۔ فیکٹر ی میں پھنسے اپنے پیاروں کی تلاش میں لواحقین صبح سے ہی سرگرداں ہوگئے اور انہوں نے خود امدادی کارروائیاں شروع کر دیں ۔ نوجوان، لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے کیلئے فیکٹری میں داخل ہو گئے جبکہ جنریٹر کیلئے پیٹرول چندہ جمع کر کے لایا گیا ۔
فیکٹری کے باہر ایک بوڑھی خاتون کو اپنے بیٹے شعیب کی تلاش تھی ۔ خاتون نے بتایا کہ شعیب کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔اسے پندرہ دن پہلے ہی اس فیکٹری میں ملازمت ملی تھی ۔ کاش مجھے پتہ ہوتا کہ یہ سب کچھ ہونا ہے تو میں اسے روک لیتی ۔خاتون کا کہنا تھا کہ ان کی دو راتیں فیکٹری کے باہر گزر گئیں لیکن شعیب کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں ۔
ادھر ایدھی سینٹر کے باہر کھڑے ایک معذور شخص دلاور کا کہنا تھا کہ میرا دس بارہ سال کا ہے۔ اس کا نام عزیز تھا اور وہ بھی اسی فیکٹری میں کام کرتا تھا ۔ اب تک اس کا کچھ پتہ نہیں ۔ایدھی سینٹر کے باہر رات سے کھڑا ہوں ، جو لاش آتی ہے ،دل نکل جاتا ہے کہ یہ کہیں عزیز کی نہ ہو ،ڈرتے ڈرتے اس کا منہ دیکھتا ہوں ۔
بلدیہ ٹاوٴن کے علاقے دہلی کالونی کا شاہد ہی کوئی گھر ایسا ہوگا جس کا کوئی نہ کوئی فرد اس حادثے سے کسی طرح متاثر نہ ہوا ہو۔ادھر شہر کے دیگر علاقوں میں بھی جن لاشوں کو ورثا ء کے حوالے کیا گیا ان کی تدفین ہوتی رہی جبکہ دیگر شہروں کے جاں بحق ملازمین کو ان کے آبائی گھروں کو روانہ کیا گیا ۔
ایدھی سرد خانے سے ایک ہی خاندان کی آٹھ لاشوں کوبھی ان کے آبائی شہر مظفر گڑھ کیلئے روانہ کیا گیا ۔
فکر انگیز پہلو
اس سانحہ میں سب سے فکر انگیز اور سبق آموز پہلو یہ ہے کہ ایسے سانحہ میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بیک وقت جھلسے ہوئے ساٹھ، ستر لوگوں سے زائد کا علاج ممکن نہیں ۔ سول اسپتال واحد ادارہ ہے جس میں برن سینٹر اور آئی سی یو ہے جبکہ دوسرے بڑے اسپتالوں جناح اور عباسی میں جھلسے مریضوں کیلئے علاج کا کوئی الگ وارڈ موجود نہیں ۔
سیاسی رہنماؤں کا دورہ
سانحہ کراچی میں جاں بحق ہونے والوں کو خراج عقید ت پیش کرنے کیلئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اراکین نے آج بھی فیکٹری کا دورہ کیا۔ پھول چڑھائے اور شمعیں روشن کیں ۔ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ واقعہ کو قومی سانحہ قرار دیا جائے اور اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائیں ۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی آج جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی گئی ہے، ذمہ داران کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی تباہ شدہ فیکٹری کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ لواحقین کو فوری معاوضہ دیا جائے اور غفلت برتنے پر کارروائی کی جائے۔
ادھر شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی بدقسمت فیکٹری دیکھی اور اس کے باہر شمیں روشن کر کے جاں بحق ہونیوالوں کو خراج عقید پیش کیا۔