حکمراں اتحاد میں شامل ایم کیو ایم اور اے این پی ہر فورم پر دہشت گردوں کے خلاف عسکری کارروائی کی کھل کر حمایت کر رہی ہیں لیکن قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ذریعے یہ بل پاس کرانے کیلئے زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیلئے قومی اسمبلی سے قرارداد کی منظوری سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اس معاملے کو نئی حکومت کے قیام تک سرد خانے میں ڈال دیا جائے۔
بدھ کو وزیرستان میں آپریشن کیلئے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جانی تھی تاہم مسلم لیگ ن کی زبردست مخالفت کے باعث یہ قرارداد پیش نہ ہوسکی۔اجلاس کے بعد مسلم لیگ ن کے مرکزی راہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار میڈیا کے سامنے آئے اور اس معاملے پر اپنا پارٹی موقف کھل کر بیان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملالہ پر حملہ افغانستان سے ہوا اور حکومت وزیرستان میں فوجی آپریشن چاہتی ہے ، اس کا کیا جواز ہے ؟ان کا کہنا تھا کہ اگر آپریشن کیا تو اس کے رد عمل میں پاکستان پر خود کش حملوں کی یلغار ہو جائے گی۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو نئی حکومت کے آنے تک سرد خانے میں ڈال دے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وزیرستان آپریشن اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت حکومت چاہتی ہے کہ امن و امان کا بہانہ بنا کر انتخابات ملتوی کر دئیے جائیں۔تحریک طالبان پاکستان سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے گروپ بن چکے ہیں ، بہت سے جرائم پیشہ عناصر اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایسے گروپس بھی ہیں جن کے بھارت سے روابط ہیں جبکہ اصل طالبان تو بھارت کو پسند ہی نہیں کرتے۔
اپوزیشن کی دوسری جماعت جے یو آئی (ف) بھی آپریشن کی بھر پور مذمت کرتی نظر آ رہی ہے۔ اور یہ صاف ظاہر ہے کہ قومی اسمبلی میں تقریباً سو ارکان پر مشتمل اپوزیشن کسی صورت یہ بل پاس نہیں ہونے دے گی۔
ادھرحکومتی اتحاد بھی فوری طور پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیلئے قرارداد کی منظوری کیلئے نظر نہیں آ رہا۔اگر چہ حکمراں اتحاد میں شامل ایم کیو ایم اور اے این پی ہر فورم پر دہشت گردوں کے خلاف عسکری کارروائی کی کھل کر حمایت کر رہی ہیں تاہم قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی اپنی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم ، اے این پی و مسلم لیگ ق کے ذریعے یہ بل پاس کرانے کیلئے زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی۔ اگر وہ چاہتی تو وہ آسانی سے سادہ اکثریت سے یہ بل پا س کروا سکتی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس بل پر ٹال مٹول کر رہی ہیں اور آئندہ انتخابات کیلئے اپنی مہم میں اس ایشو کو استعمال کر کے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان سے متعلق بعض عناصر عام آدمی کو دن بدن مزید کنفیوز کر رہے ہیں۔
کچھ قوتیں طالبان کو اچھا اور کچھ کم اچھامیں تقسیم کر رہی ہیں ، کچھ کا خیال ہے کہ طالبان میں بیرونی ایجنٹ گھس کر ملک کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں ، طالبان پاکستان فوج کے اپنے پیدا کردہ ہیں جو بعد میں قوم کے خلاف ہو گئے ہیں۔کوئی طالبان کو ظالمان قرار دیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
بدھ کو وزیرستان میں آپریشن کیلئے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جانی تھی تاہم مسلم لیگ ن کی زبردست مخالفت کے باعث یہ قرارداد پیش نہ ہوسکی۔اجلاس کے بعد مسلم لیگ ن کے مرکزی راہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار میڈیا کے سامنے آئے اور اس معاملے پر اپنا پارٹی موقف کھل کر بیان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملالہ پر حملہ افغانستان سے ہوا اور حکومت وزیرستان میں فوجی آپریشن چاہتی ہے ، اس کا کیا جواز ہے ؟ان کا کہنا تھا کہ اگر آپریشن کیا تو اس کے رد عمل میں پاکستان پر خود کش حملوں کی یلغار ہو جائے گی۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو نئی حکومت کے آنے تک سرد خانے میں ڈال دے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وزیرستان آپریشن اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت حکومت چاہتی ہے کہ امن و امان کا بہانہ بنا کر انتخابات ملتوی کر دئیے جائیں۔تحریک طالبان پاکستان سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے گروپ بن چکے ہیں ، بہت سے جرائم پیشہ عناصر اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایسے گروپس بھی ہیں جن کے بھارت سے روابط ہیں جبکہ اصل طالبان تو بھارت کو پسند ہی نہیں کرتے۔
اپوزیشن کی دوسری جماعت جے یو آئی (ف) بھی آپریشن کی بھر پور مذمت کرتی نظر آ رہی ہے۔ اور یہ صاف ظاہر ہے کہ قومی اسمبلی میں تقریباً سو ارکان پر مشتمل اپوزیشن کسی صورت یہ بل پاس نہیں ہونے دے گی۔
ادھرحکومتی اتحاد بھی فوری طور پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیلئے قرارداد کی منظوری کیلئے نظر نہیں آ رہا۔اگر چہ حکمراں اتحاد میں شامل ایم کیو ایم اور اے این پی ہر فورم پر دہشت گردوں کے خلاف عسکری کارروائی کی کھل کر حمایت کر رہی ہیں تاہم قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی اپنی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم ، اے این پی و مسلم لیگ ق کے ذریعے یہ بل پاس کرانے کیلئے زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی۔ اگر وہ چاہتی تو وہ آسانی سے سادہ اکثریت سے یہ بل پا س کروا سکتی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس بل پر ٹال مٹول کر رہی ہیں اور آئندہ انتخابات کیلئے اپنی مہم میں اس ایشو کو استعمال کر کے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان سے متعلق بعض عناصر عام آدمی کو دن بدن مزید کنفیوز کر رہے ہیں۔
کچھ قوتیں طالبان کو اچھا اور کچھ کم اچھامیں تقسیم کر رہی ہیں ، کچھ کا خیال ہے کہ طالبان میں بیرونی ایجنٹ گھس کر ملک کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں ، طالبان پاکستان فوج کے اپنے پیدا کردہ ہیں جو بعد میں قوم کے خلاف ہو گئے ہیں۔کوئی طالبان کو ظالمان قرار دیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔