ویب ڈیسک۔ا مدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی صنفی بنیاد پر سیاست اور غیر ملکی فنڈنگ میں کمی کے درمیان پھنسا ہوئے افغانستان میں تعلیم کا سرکاری شعبہ تباہ ہوجانے کے خطرے سے دو چار ہے۔
لاکھوں طلبا کے لیے پبلک اسکولوں کو کھلا رکھنے کے لئے کم از کم ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہےجس سے تنخواہوں کے علاوہ دوسرے لازمی تعلیمی وسائل اور چیزیں فراہم کی جا سکیں۔ لیکن جنگوں سے تباہ حال ملک یہ رقم اپنے پاس سے فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے۔
افغانستان میں عملی طور پر قائم طالبان حکومت نے، جس کو عالمی تعزیرات کا سامنا ہے، اس سال دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کا قومی بجٹ بنایا ہے جس میں پہلے ہی کوئی پانچ سو ملین ڈالر کا خسارہ ہے۔
’سیو دی چلڈرن ان افغانستان‘کے نام سے کام کرنے والی تنظیم کے ترجمان عاشق اللہ مندو زئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک کے تعلیمی نظام کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے کوئی ایک لاکھ ستاسی ہزار اساتذہ کو تنخواہوں کی مد میں رقم کی ضرورت ہو گی۔
SEE ALSO: 'افغان خواتین کو جنوبی افریقہ کے نسلی امتیاز کی طرز پر صنفی امتیاز کا سامنا ہے‘نئی وزارت تعلیم نے اشارتًا کہا ہے کہ وہ موجودہ ورک فورس کے صرف تیس فیصد اساتذہ کو تنخواہیں ادا کر سکتی ہے۔
غیر ملکی عطیات دہندگان نے کزشتہ سال طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کے لئے ترقیاتی فنڈنگ روک لی تھی۔ غیر ملکی امداد میں میں پبلک ایجوکیشن سیکٹر کی فنڈنگ بھی شامل ہے۔
البتہ غیر ملکی تنظیموں نے افغانستان کےلیے انسانی امداد برقرار رکھی ہے اس امداد کے بڑے حصے کا مقصد ملک میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو بھوک سے بچانا ہے۔
عطیات دینے والوں کو طالبان کی تعلیمی پالیسی سے سخت اختلافات ہیں۔ وہ خاص طورر پر لڑکیوں کے لئے سیکنڈری اسکول بند کئے جانے پر ناخوش ہیں۔
لڑکیوں کے لیے ایسے میں ملک کے بیشتر حصوں میں سیکنڈری اسکول ایک سال سے زیادہ عرصے سے بند ہیں جبکہ طالبان حکام نے کہا تھا کہ وہ تمام لڑکیوں کے لئے اسکول دوبارہ کھولنے کے لئے مذہبی علما کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان پبلک اسکولوں کی بڑی تعداد کو مذہبی مدارس میں تبدیل کر رہے ہیں۔ تعلیمی نصاب تبدیل کر رہے ہیں۔ مولویوں اور مذہبی لوگوں کو اساتذہ کے طور پر بھرتی کر رہے ہیں۔ اور تعلیمی نظام میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی ترقی کے لئے امریکی ادارے یو ایس اے آئی ڈی نے پبلک اسکولوں کی عمارتوں کو مذہبی مدارس میں تبدیل کر نے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ادھر سینیئر طالبان عہدیدار ،جیسے کہ اعلی تعلیم کے وزیر ہیں، برسر عام جدید تعلیم سے بیزاری کا اظہار اور افغانستان کے تعلیمی نظام کو سخت انداز میں اسلامی بنانے کاعزم ظاہر کر چکے ہیں۔