ترکیہ کے انتخابات: ایردوان اور ملک کی سیاسی شناخت کی جدوجہد

انقرہ میں 14 مئی کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات سے قبل ترک صدر طیب اردگان کے پوسٹر کے سامنے ترک پرچم لہرا رہے ہیں۔

ترک قوم اس سال جدید ترکیہ کے قیام کے صد سالہ جشن منانے کی تیاری ایسے وقت میں کر رہی ہے جبکہ وہ اپنی سیاسی شناخت کی جدو جہد میں مصروف نطر آرہی ہے۔

عالمی سطح پر ترکیہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ محل وقوع کے حساب سے اسے ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک گیٹ وے کہا جاتا ہے؛ ترکیہ قوم پرستی اور یورپی انضمام کے درمیان ایک استعاراتی سنگم کو بھی ظاہر کرتا ہے؛ اور عالمی سطح پرمسلم دنیا کی سیاست کی علامتی قیادت کا امیدوار بھی ہے۔

اور موجودہ تناظر میں سب سے بڑھ کر یہ کہ صدر رجب طیب ا یردوان دوبارہ منتخب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ تاثر عام ہے کہ ایردوان کا عہد منقسم ثابت ہوا ہے۔ ایک ایسا دور کہ جس نے ترک معاشرے کو سیاسی طور پر سیکولرز اور قدامت پسندوں کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ ایردوان کے حامی زیادہ تر مذہبی، سماجی طور پر قدامت پسند، دیہی یا نئے شہری علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے لوگ ہیں۔ ان لوگوں کو ایردوان کے دور اقتدار میں ملک میں ابھرنے والا نیا متوسط طبقہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ لوگ ایردوان کی کرشماتی شخصیت سے متاثر ہیں، ان کے اقتدار میں تسلسل کو استحکام کے طور پر دیکھتے ہیں، اور ان کے عاجزانہ آغاز کی تعریف کرتے ہیں کہ ایردوان نے، رپورٹس کے مطابق، فٹ بال کھیلنے کا اپنا شوق ترک کر دیا اور اس کے بجائے اپنے والد کی مالی مشکلات میں مدد کرنے کے لیے بن اور لیمونیڈ فروخت کیا کرتے تھے۔

SEE ALSO: ترکیہ کا صدارتی الیکشن: کون کتنا اہم ہے؟

دوسری جانب، ا یردوان کے حریف ایک سیاسی الحاق کے تحت متحد ہو ئے ہیں۔ ان کے مخالفین کا ماننا ہے کہ موجودہ صدر کی 'آمرانہ' حکمرانی ترک معاشرے کی سیکولر اقدار کو داغدار کر رہی ہے۔ حزب اختلاف کی نظر میں ایردوان کی 'اسلام سے جڑی سیاست' سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک کی قیادت میں قائم کی گئی جدید ترکیہ کی بنیاد سے متصادم ہے۔

اتوار14 مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کو دو دہائیاں قبل اقتدار میں آنے والے ایردوان کے لیے سب سے مشکل مقابلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

بطور وزیر اعظم ایردوان نے تین مدتیں مکمل کیں اور سال 2014 سے وہ براہ راست منتخب صدر کے طور پر ترکیہ کی قیادت کر رہے ہیں۔ سن 2017 میں ترکیہ نےایک ریفرنڈم کے ذریعے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا تھا اور اگلے ہی سال ایردوان ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔

اقتدار میں ان کی حیثیت بدلنے کےساتھ ساتھ صدر ایردوان جن چیزوں کی علامت سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بدل گئی ہیں۔

SEE ALSO: ترکیہ:انتخابی جائزوں میں اپوزیشن اتحاد کی صدر ایردوان پر برتری

جب وہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے تو انہیں ایک ایسا ملک ورثے میں ملا جہاں جمہوری قوتیں کمزور تھیں، فوج طاقتور، معیشت چیلنجزسے نبرد آزما تھی اورمعاشرے میں بے چینی کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں انہوں نے اپنی معتدل پالیسیوں سے ناقدین کو چونکا دیا، عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے نمٹا اور ملکی معیشت کا رخ موڑ دیا اور یورپی یونین کی رکنیت کے لیے کوشاں رہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو مذہبی تنازعات سے دور رکھا اور خود کو جمہوریت کے ایسے علمبردار رہنما کے طور پر پیش کیا جو مغربی دنیا کے ساتھ مضبوط تعلقات کا خواہاں تھا۔

اس کےبعد جیسے ہی ایردوان نے اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کیا، انہوں نے سیکولرز اور کسی وقت طاقتور رہنے والے جرنیلوں کو پیچھے دھکیلنا اور آزادی صحافت کو دبانا شروع کر دیا۔

ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب آج سے تقریباً ایک دہائی قبل استنبول کے تقسیم گیزی پارک میں ماحولیاتی مظاہرے حکومت کے ساتھ تصادم کی شکل اختیار کر گئے اور ریاستی اداروں کی طرف سے وحشیانہ طاقت کا استعمال کیا گیا اور سڑکیں 'آمر' کے نعروں سے گونج اٹھیں۔ ترکی بھر میں پھیل جانے والے ان مظاہروں میں مبینہ طور پر متعدد مظاہرین ہلاک ہوئے تھے۔

پھر ایردوان کے خلاف سال 2016 کی ناکام بغاوت کا اہم واقعہ پیش آیا۔ اس بغاوت کے دوران ایردوان کا ایک مختلف رخ سامنے آیا ۔ انہوں نے فوج، عدلیہ، سول سوسائٹی، یونیورسٹیوں، میڈیا سمیت اداروں سے باغی عناصر کا صفایا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا، ہزاروں افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ ا یردوان نے آئین میں ترمیم کر کے ایک طاقتور صدر بننے کے لیے مزید اختیارات حاصل کر لیے۔

SEE ALSO: ایردوان کو کارکردگی پر تنقید کا سامنا، ترکیہ کے صدارتی انتخابات میں کانٹے کےمقابلے کا امکان

مبصرین کا خیال ہے کہ خطے کے کئی ممالک میں عرب اسپرنگ یا عرب بہار کے نام سے جانی جانے والی بغاوت کی تحریکوں کی ناکامی نے ایردوان کو "پین اسلامسٹ" یعنی عالمی سطح پر اسلام کا علمبردار بننے کا اعتماد دیا۔

اس سلسلے میں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سینئر فیلو اور ترک امور کے ماہر پروفیسر کمال کریسی کہتے ہیں"ایردوان عرب بہار کے دنوں میں خود کو پین اسلامسٹ تصور کرتے تھے… انہوں نے ایک ایسے وقت میں (مصر کے سابق صدر محمد) مرسی کی قیادت میں کام کرنے والی (تنظیم) اخوان المسلمین کی حمایت کی تھی جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین اس گروپ پر شکنجہ کس رہے تھے"

مبصرین کی نظر میں عرب بہار اور گیزی پارک کے مظاہرے کے واقعات کے بعد ترک عوام کو ایسے لگا کہ ایردوان نے جیسے اپنے چہرے سے نقاب اٹھا لیا۔ انہوں نے تمام اختلاف رائے پر قابو پانے کے اقدامات کیے ۔ حتی کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین کے ساتھ مردوں کے مساوی سلوک نہیں کیا جا سکتا اور حقوق نسواں کی پیروکاروں پر الزام لگا یا گیا کہ وہ ماں بننے کے تصور کو مسترد کرتی ہیں۔ اور یہ کہ ایردوان اب اسلامی روایات میں ترک معاشرے کی جڑوں کا سراغ لگانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔

اس ضمن میں ترک صدر کے ناقدین مذہبی اسکولوں اور مساجد میں تیزی سے اضافے اور ریاست کے زیر انتظام دیانت تنظیم یا مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی نشاندہی کرتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

ترکیہ میں زلزلے کی رپورٹنگ: میڈیا کو جرمانوں اور گرفتاریوں کا سامنا

ایردوان کے اسلامی عزائم ان کے نوعمری سے ہی مذہب کی طرف جھکاؤ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک مذہبی سکول میں تعلیم حاصل کی اور اسلامک ویلفیئر پارٹی کے یوتھ ونگ میں سیاسی تربیت حاصل کی۔ یہاں تک کہ انہیں کھلے عام ایک نظم پڑھ کر 'مذہبی' جذبات بھڑکانے کے جرم میں جیل کی سزا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس نظم میں لکھا تھا کہ "مساجد ہماری بیرکیں، گنبد ہمارے ہیلمٹ، مینار ہمارے سنگ مرمر، اور ہمارے وفادار ہمارے فوجی ہیں"۔

علاوہ ازیں، ایردوان نے تاریخی ’ آیا صوفیہ‘ مسجد کو بحال کیا، جو کبھی بازنطینی دور کا کیتھیڈرل اور عجائب گھر ہو اکرتا تھا۔سرکاری تنظیم دیانت کے سربراہ علی ایرباس نے تلوار تھام کے مسجد میں خطبہ پڑھا۔

ایردوان کے ایسے اقدامات اسلام کی طرف جھکاو رکھنے والے ان افراد کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو ان کے کلیدی حامی ہیں۔ لیکن دوسروں کو ان کے ملک کو اس سمت میں ڈالنے کے بارے میں فکر مند ی ہے کیونکہ ان کے مطابق یہ اقدامات جدید ترکیہ کے بانی کے نظریے کی مخالفت کرتے ہے۔

اس پہلو پر بات کرتے ہوئے واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ میں ترک ریسرچ پروگرام کے ڈائریکٹر اور مصنف سونر چھاآپتےنے وائس آف امریکہ کو بتایا: "کمال اتاترک ترکیہ کو سیکولر، یورپی، مغرب کی طرف مائل ملک بنانا چاہتے تھے۔ اور ایردوان، جنہیں میں ان پالیسیوں کو نہ اپنانے کی بنا پر اتاترک مخالف کہتا ہوں، چاہتے ہیں کہ ترکی اسلامی ہو ، مشرق وسطیٰ کا حصہ ہو اور سماجی طور پر قدامت پسند ہو۔"

سونر چھاآپتے مزید کہتے ہیں، "ایردوان نے بہت کچھ کیا ہے، معاشی ترقی کی ہے لیکن عام ووٹر کی نظر میں وہ اتاترک کے قریب نہیں ہے"

ایردوان کے مد مقابل کمال کلیچ دار اوغلو ہیں، جو ری پبلکن پیپلز پارٹی یا سی ایچ پی پارٹی کے سربراہ ہیں جس کی بنیاد اتاترک نے سو سال قبل رکھی تھی۔ گزشتہ چند برسوں میں، دارالحکومت انقرہ اور استنبول دونوں ایردوان سے اس وقت دور ہو گئے جب ان کے امیدوار میئر کے انتخابات میں ان کے حریفوں سے ہار گئے۔ ایردواں کو اب کرد نواز پارٹی، ایچ ڈی پی کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ترکیہ: کیا عدلیہ سیاسی آلۂ کار بن رہی ہیں؟

ترکیہ میں سیاسی اتار چڑھاؤ اب واضح نظر آتا ہے۔ مقامی طور پر، 'نازک' معیشت اور حالیہ تباہ کن زلزلے کے سیاسی جھٹکے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اس زلزلے میں لگ بھگ 50,000 افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئےگئے تھے۔ متاثرین ایردوان حکومت پر زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کے ناکافی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر ترکیہ میں کسی بھی قسم کا عدم استحکام ملک کی جیو اسٹریٹجک محل وقوع کی وجہ سے مغرب کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ترکیہ کی سرحدیں مشرق میں ایران، آرمینیا اور آذربائیجان سے، جنوب میں شام سے اور جنوب مشرق میں عراق سے ملتی ہیں۔ جبکہ یہ ملک یورپ جانے کی راہداری بھی تصور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ترکیہ نے لاکھوں شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔

ایردوان کے حریفوں کا دعویٰ ہے کہ آئندہ انتخابات ’آمرانہ‘ حکمرانی کے دور کا خاتمہ کریں گے۔ لیکن ترک عوام کے ایک حصے کو اس افراتفری کے بارے میں بھی تشویش ہے جو ایردوان کی انتخابات میں شکست کی صورت میں پھیل سکتی ہے۔

اس ممکنہ صورت حال کے بارے میں پروفیسر کمال کریسی کہتے ہیں: "میں ایسے منظر نامے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا جہاں ایردواں اور ان کے پیروکار انتخابات کے نتائج کو قبول نہ کریں۔ یہ واقعی ترکیہ کے چین اور روس کی قیادت میں ایک آمرانہ دنیا کی صفوں میں شامل ہونے کی مہر ثابت ہو گی۔"