رسائی کے لنکس

ترکیہ کا صدارتی الیکشن: کون کتنا اہم ہے؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

ترکیہ میں 14 مئی کو ہونے والا صدارتی الیکشن کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس انتخاب میں فیصلہ ہوگا کہ صدر رجب طیب ایردوان دو دہائیوں سے جاری اپنی حکمرانی کا تسلسل برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں۔

عوامی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق انتخابی میدان میں صدر ایردوان کے سب سے بڑے سیاسی مقابل اور حزبِ اختلاف کے امیدوار کمال قلیچ دار اولو کی پوزیشن مستحکم ہے اور مبصرین کو صدارتی الیکشن میں کانٹے کے مقابلے کی توقع ہے۔

ترکیہ کی قوم پرست پارٹی ایم ایچ پی اس انتخاب میں صدر ایردوان کی اسلام پسند اے کے (جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ) پارٹی کی اتحادی ہے۔ اس کے مقابلے میں سیکیولر نظریات کی حامل سی ایچ پی اور دیگر پانچ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے اور اسے ممکنہ طور پر کرد پارٹی ایچ ڈی پی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ تمام جماعتیں مل کر الیکشن میں صدر ایردوان سے برابری کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔

ترکیہ کے انتخابی منظر نامے میں کون کتنا اہم ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے یہاں اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

صدر ایردوان کی انتخابی مہم

صدر ایردوان کی عمر 69 برس ہے اور وہ گزشتہ دو دہائیوں سے اقتدار میں ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت کو بد انتظامی جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ صدر ایردوان کے دورِ عروج میں ترکیہ کی معیشت نے تیزی سے ترقی کی تھی۔ اس دور میں ترکیہ کے تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ افراد کا معیارِ زندگی بہتر ہوا تھا۔

صدر ایردوان ترکیہ کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے حکمران ہیں۔ اس دوران انہوں ںے درجن سے زائد انتخابی کامیابیاں سمیٹیں اور 2016 میں ان کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت بھی ناکام ہوگئی۔

صدر ایردوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں ترکیہ کی تشکیلِ نو کی ہے۔ اس کی سیکیولر شناخت کو تبدیل کرکے معاشرے میں قدامت پسندی کو فروغ دیا اور علاقائی سطح پر ترکیہ کی اہمیت منوانے کی پالیسی اختیار کی۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ایردوان نے عدلیہ کو اپنے مخالفین کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا۔

اپنی انتخابی مہم میں ایردوان نے انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں اور صنعتی فروغ کو مرکزی نکتہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی مہم میں ووٹرز کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں کہ اپوزیشن کی کامیابی کی صورت میں نظامِ حکومت انتشار کا شکار ہو جائے گا۔

ایردوان کے سب سے بڑے مقابل

انتخاب میں صدر رجب طیب ایردوان کے مقابلے میں سب سے مضبوط امیدوار کمال قلیچ دار اولو ہیں۔ ان کی عمر 74 برس ہے اور ان کا تعلق ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) سے ہے۔ انہیں مارچ میں چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد نے صدارتی امیدوار نام زد کیا تھا۔

کمال قلیچ دار اولو نے 2010 میں سی ایچ پی کی قیادت سنبھالی تھی لیکن اس کے بعد ہونے والے انتخابی معرکوں میں وہ صدر ایردوان کی اے کے پارٹی سے برابری کا مقابلہ نہیں کرسکے۔

کمال قلیچ دار اولو سابق سول سرونٹ ہیں۔ وہ 2002 میں پہلی بار سی ایچ پی کی جانب سے رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ جدید ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے سی ایچ پی کی بنیاد رکھی تھی۔

قلیچ دار اولو اپنی انتخابی مہم میں صدر ایردوان کے خارجہ پالیسی میں جارحانہ انداز اور معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی ان کے انتخابی وعدوں میں شامل ہیں۔

دیگر امیدوار

فزکس کے سابق استاد اور ہیڈ ماسٹر، 58 سالہ محرم انجے کے صدر بننے کے امکانات بہت کم ہیں۔ وہ 16 سال پارلیمنٹ کے رکن رہے ہیں اور ایوان میں صدر ایردوان پر کڑی تنقید کرنے کی وجہ سے انہیں شہرت حاصل ہوئی۔ انجے 2018 میں اپوزیشن کے مرکزی صدارتی امیدوار تھے۔ اس انتخاب میں انہوں نے 30 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ 50 فی صد سے زائد ووٹ لے کر صدر ایردوان کامیاب ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ 55 سالہ سنان اوان بھی صدارتی امیدوار ہیں۔ ان کی جیت کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔ انہوں نے ایک تھنک ٹینک کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ وہ 2011 میں دائیں بازو کی جماعت ایم ایچ پی سے رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔2015 میں انہوں نے ایم ایچ پی کی قیادت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔

صدر ایردوان کے اتحادی

قوم پرست رہنما دولت باہجیلی نے 2017 میں صدارتی اختیارات بڑھانے کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں صدر ایردوان کی حمایت کی تھی۔ اگرچہ اس سے قبل وہ ایردوان کے سخت مخالف تھے لیکن 2016 میں فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد نیشنلسٹ پارٹی (ایم ایچ پی) اور صدر کی پارٹی اے کے پی کے درمیان قربتیں بڑھنا شروع ہوئیں۔

جیل میں موجود اہم رہنما

کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے سابق لیڈر صلاح الدین دیمرتاس اگرچہ 2016 سے جیل میں ہیں لیکن انہیں اہم سیاسی فریق کہا جاتا ہے۔ دیمرتاس کو 2014 میں حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاج میں تشدد پر اکسانے کے الزامات ہیں اور اس میں انہیں ممکنہ طور پر عمر قید ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس انتخاب میں اپوزیشن کے صدارتی امیدوار کمال قلیچ دار اولو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

پرانے اتحادی، موجودہ ناقد

علی بابا جان سابق نائب وزیرِ اعظم اور ماضی میں صدر ایردوان کے قریبی اتحادی رہے ہیں۔ انہوں نے 2013 میں اے کے پی سے راہیں جدا کرلی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے دوا پارٹی کی بنیاد رکھی۔ وہ معاشی اور خارجہ امور کے سابق وزیر ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں میں انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

طیب ایردوان کے ایک اور سابق اتحادی ، سابق وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ احمد داؤد اولو نے 2019 میں اے کے پی سے علیحدگی اختیار کرکے گیلیجک(فیوچر) پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔

اپنی وزارتِ خارجہ کے ابتدائی دور میں وہ ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کے پرزور حامی تھے۔ وہ صدر ایردوان کی جانب سے اپنے اختیارات میں اضافے کے لیے کیے گئے اقدامات کے ناقد ہیں۔

XS
SM
MD
LG