افغان طالبان کی واپسی کے موضوع پر لکھی گئی ایک نئی کتاب مختلف عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ عالمی حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود افغانستان کے اندرونی حالات اور جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ملک کے حکمرانوں سے بات چیت کے ذریعہ ہی امریکہ خطے میں اپنے مفادات کا دفااع کرسکتا ہے۔
کتاب "دی ریٹرن آف طالبان" یعنی طالبان کی واپسی کے مصنف حسن عباس، جوکہ واشنگٹن کی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں بین الااقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں، لکھتے ہیں کہ افغانستان اور طالبان کو ماضی کے بجائے نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پروفیسر عباس نے کہا " ابھی افغانستان کا باب ختم نہیں ہوا، ہر چند کہ طالبان کے حکومت سنبھالنے سے ہمیں سیاسی، سماجی اور علاقائی سطحوں پر بہت سی خامیاں اور خلیج کے نکات نظر آرہے ہیں۔ مگر افغانستان کے مخصوص حالات میں طالبان کے اس طرح اقتدار میں آنے سے ایسا ہونا ناگزیر تھا۔"
خیال رہے کہ سال 2021 میں امریکی اور بین الااقوامی افواج کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی طالبان کے کابل پر قبضے نے دنیا کے لیے مخمصمہ پیدا کردیا کہ گزشتہ کئی سالوں سے چلی آرہی سیاسی حکومت کی یکسر غیر موجودگی میں ملک کے نئے قابض حکمرانوں سے کیسے نمٹا جائے کیونکہ ماضی میں طالبان کی انتہا پسند پالیسیوں نے پوری دنیا کے لیے مسائل کھڑے کیے تھے۔
اقتدار پر قابض ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد طالبا ن نے خواتین اور لڑکیوں کو امریکہ کے ساتھ کیے گئے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا شروع کردیا۔ یوں بین الااقوامی برادری کے لیے گیارہ ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں میں ملوث القاعدہ تنظیم کی پناہ گا ہ بننے والے ملک کے ساتھ تعلقات خدشات اور تشویش کا شکار ہوتے گئے ۔ نتیجتاً امریکہ نے تعزیرات کی راہ اپنائی اور طالبان سے براہ راست بات چیت سے گریز کیا۔
واشنگٹن میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اگرچہ کچھ دیر تک افغانستان کے اثاثے منجمد کرنے کے بعد انسانی بنیادوں پر افغانستان کی کچھ رقوم کو مخصوص امدادی پروگراموں پر خرچ کرنے کے لیے ریلیز کردیا لیکن سفارتی اور عوامی سطح پر افغان طالبان سے انسانی حقوق کی پامالی کے باعث رابطوں کو محدود کردیا۔ امریکہ نے طالبان کے اقتدار سے بھاگ کر آنے والے آنے والے کئی ہزار پناہ گزینوں کو ملک میں رہنے کی اجازت دی ہے۔
SEE ALSO: مغربی ملکوں کا طالبان سے انسانی بنیادی حقوق کی بحالی اور ذمہ داریاں پوری کرنے کا مطالبہواشنگٹن میں دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ پاکستان اور افغانستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائن بام کے مطابق طالبان کی قدامت پسند پالیسیوں اور خواتین کے کام کرنے اور لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندیوں نے واشنگٹن کے لیے طالبان سے مذاکرات کو مشکل بنا دیا ہے۔
لیکن حسن عباس اپنے تجزیے اور تحقیق کی روشنی میں کہتے ہیں کہ امریکہ کے لیے جنگجو گروپ کے ساتھ مذاکرات پر تصفیہ طلب مسائل کے حل کا سسب سے زیادہ موزوں راستہ ہے۔ ملک میں طالبان کی پانبدیو ں کے باوجسود کچھ امید افزا پہلو ہیں جبکہ خطرات کے حوالے سے ملک میں اب بھی انتہا پسند تنظیم داعش کے جنگجو بھی موجود ہیں۔
لیکن آخر ایسے کیا عوامل ہیں کہ جن کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ طالبان سے بات چیت کی راہ اپنائے؟
اپنی کتاب میں پیش کیے گئے جوازکے حوالے سے حسن عباس کہتے ہیں کہ اول تو یہ کہ 1990 کی دہائی کے طالبان کے مقابلے میں آج کے طالبان صرف ایک ہی ملک سے تعلقات کے خواہاں نظر نہیں آتے ۔ اس وقت لوگ سمجھتے تھے کہ طالبان صرف پاکستان سے قریبی تعلقات چاہتے تھے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ اب طالبان کے قطر اور دوسرے خلیجی ممالک سے بھی تعلقات ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو ان کے لیے قطر پاکستان سے زیادہ اہم ملک دکھائی دیتا ہے۔
حسن عباس، جو اس سے قبل بھی افغانستان پر ایک کتاب تحریر کرچکے ہیں، کہتے ہیں کہ اس وقت طالبان نے بھارت کو بھی افغانستان میں موجودگی کی اجازت دی ہے اور پاکستان کو بھی اس پر بظاہر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
مصنف کا خیال ہے کہ تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ مذاکرات ہی پیچیدہ مسائل کو حل کرتے ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان میں موجود دہشت گردوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں: امریکہان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں تمام طالبان اس وقت کوئی ایک جیسی سوچ نہیں رکھتے بلکہ ان میں کئی فرق واضح نظر آتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر عباس کہتے ہیں کہ اس وقت طالبان کی دو اقسام ہیں۔ ایک طرف تو ماضی کی سخت گیر سوچ رکھنے والے طالبان ہیں جو قندھار میں مرکوز ہیں اور ملا ہیبت اللہ اس سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مصنف کے الفاظ میں یہ قدامت پسند طالبان کی کلاسیکیل صورت ہے۔ ایسے لوگوں کو باہر کی دنیا سے تعلقات یا میل ملاپ کی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے۔
دوسری جانب، مصنف کے مطابق، کابل میں رہنے والے وہ "اعتدال پسند" طالبان ہیں جو نئے عالمی اور خطے کے تناظر میں دنیا کو دیکھتے ہیں اور امریکہ سے روابط استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے طالبان رہنماوں میں طالبان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا کبیر، وزیر دفاع ملا یعقوب اور سراج حقانی شامل ہیں۔
ان کے اعتدال پسند ہونے کے ثبوت کے حوالے سے پروفیسر حسن عباس کہتے ہیں کہ طالبان نے دارالحکومت پر قبضہ کرتے وقت اس بات کی احتیاط کی کہ انفراسٹرکچر اور اداروں کو تباہ نہ کیا جائے۔ انہوں نے افغانستان کی گزشتہ سیاسی حکومت کے ساٹھ فیصد ملازمین کو حکومت میں برقرار رکھا۔ اس کے علاوہ آج کے طالبان میں ماضی کی پشتون اکثریت کے برعکس تاجک اور ہزارہ برادریوں سے بھی کچھ لوگ شامل ہیں۔ حتی کہ، کتاب کے مصنف کے مطابق، طالبان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔
طالبان میں اعتدال پسند لوگوں کی موجودگی کے علاوہ آج کے افغانستان اور ماضی کے افغانستان میں فرق ہے۔ حسن عباس، جنہوں نے اپنی کتاب تحریر کرنے سے قبل پاکستان کا دورہ بھی کیا اور طالبان کے مدرسوں پر بھی تحقیق کی، کہتے ہیں کہ یہ فرق خاص طور پر افغان عوام کی آگاہی سے متعلق ہے ۔
SEE ALSO: امریکہ کا دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے لیے کوشاں افراد سے یکجہتی کا اظہاراس سلسلے میں وہ زور دیتے ہیں کہ پابندیوں اور دباو کے باوجود افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے احتجاجی مظاہر ے ہوتے ہیں اور لوگ حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔
مصنف کےمطابق افغانستان کی،خطے میں اہمیت بھی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ امریکہ کو طالبان سے مذاکرات کرنے چاہییں کیونکہ مذاکرات کے ذریعے امریکہ ان سے اپنی بات منوا سکتا ہے۔
"امریکہ کے لیے جنوبی ایشیا کے خطے میں استحکام ایک اہم ترین ترجیح ہے اور افغانستان اس ضمن میں خطے کے کئی ملکوں کےساتھ جڑے ہونے کے باعث انتہائی اہم ہے۔"
ایک اور اہم بات افغانستان میں امریکہ کی گزشتہ دو عشروں میں سرمایہ کاری ہے۔
"امریکہ نے افغانستان میں ترقی اور جمہوری طرز کی حکومت قائم کرنے پر بہت توجہ دی اور وہ سب کچھ کیا جو وہ ممکنہ طور پر کر سکتا تھا۔ لیکن اب خطے میں روس اور چین جیسے دوسرے ممالک افغانستان کی ترقی کی امکانات اور خطے میں اس کی اہم جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے طالبان سے حکومتی سطح پر، انہیں سفارتی طور پر تسلیم کیے بغیر، تعلقات بنارہے ہیں۔ "
SEE ALSO: افغانستان میں چین کی بڑھتی ہوئی سفارتی سرگرمیاں ، معاملہ کیا ہے؟مذاکرات کے حق میں اپنے دلائل دیتے ہوئے حسن عباس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت ہی تھی جس نے دوحہ معاہد ہ کو ممکن بنایا اور امریکی اوربین الااقوامی فورسز کی افغانستان سے واپسی ممکن ہو سکی۔
لیکن ایسے وقت میں جبکہ عالمی تناظر میں تبدیلییا ں رونما ہورہی ہیں اور امریکہ کی توجہ اس وقت یوکرین جنگ اور چین کے ساتھ مسابقت پر مرکوز ہے امریکہ افغانستان پر اتنی توجہ کیوں دے؟
اس کے جواب میں حسن عباس کہتے ہیں کہ افغانستان میں بہتری کے لیے کی جانی والی سالہاسال کی کوششوں کے علاوہ امریکہ کے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں طویل المعیاد مفادات ہیں اور افغانستان کے موجودہ حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ مذاکرات کے ذریعہ اپنے مفادات کو بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکتا ہے۔ "