اسلام آباد ميں قائم گھريلو فضلے کو صاف کرنے کا پلانٹ فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے۔
دارالحکومت کے آئی نائن سيکٹر ميں بنايا گيا يہ اسٹيٹ آف دی آرٹ پلانٹ حکومت نے 1964 ميں شروع کيا تھا جو چار مراحل میں مکمل ہوا۔
ابتدائی طور پر پہلے اور دوسرے مرحلے کے تحت 40 لاکھ گيلن يوميہ فضلے کو صاف کرنا تھا، ليکن بعد ميں جيسے جيسے دارالحکومت کی آبادی ميں اضافہ ہوتا گيا، اس پلانٹ کی صلاحيت بڑھانے کی ضرورت محسوس کی گئی اور رفتہ رفتہ مزید دو مراحل مکمل کیے گئے۔
فرانس کے تعاون سے 2007 ميں اس منصوبے کے چوتھے فیز میں اس پلانٹ کی گنجائش ايک کروڑ گيلن ہو گئی جس کے بعد اس کی مجموعی گنجائش ايک کروڑ ستر لاکھ گيلن يوميہ ہوئی۔
شروع دن سے لے کر آج تک يہ پلانٹ اپنی صلاحيت سے کم فضلے کو ٹريٹ کر رہا ہے جس کی بنيادی وجہ فضلہ لے جانے والے پائپس کے جوائنٹس درست نہیں، جس کی وجہ سے يہ منصوبہ زیادہ افاديت بخش نہیں رہا۔
لیکن شہر میں مختلف مقامات پر لوگوں نے فضلہ لے جانے والی لائنوں کو قدرتی ندی نالوں ميں کھول ديا ہے جو ماحولياتی آلودگی کا باعث بھی بن رہا ہے۔
سیوریج پلانٹ کے ايک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امريکہ کو بتايا کہ ساڑھے تين ارب روپے کی خطير رقم سے تعمير ہونے والا يہ پلانٹ اس لیے لگايا گيا تھا کہ گھريلو سیوریج کا پانی اسلام آباد کے مختلف ترقی يافتہ رہائشی سيکٹروں سے ہوتا ہوا ہہاں ٹريٹ ہو سکے۔
اہلکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معيار کے مطابق، تقريباً 25 سيکٹرز کے گھريلو سیوریج کے پانی کو مختلف تکنيکی مراحل سے گزارنے کے بعد ٹريٹ کيا جاتا ہے۔ ٹريٹ ہونے کے بعد پانی کو الگ کيا جاتا ہے اور فضلے سے نامياتی کھاد بنائی جاتی ہے۔
نامیاتی کھاد فصلوں کے لیے بہت کار آمد ہوتی ہے۔ سیوریج پلانٹ کے اہلکار کے مطابق، محکمے نے کاشت کاروں کی سہولت کے لیے سیوریج کے فضلے سے بنائی جانے والی کھاد کی 50 کلو گرام کی فی بوری 70 روپے میں دستیاب ہے۔
ماہرين کے مطابق، يہ کھاد بازاری کھاد سے بہت زيادہ زرخيز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹريٹ شدہ پانی سے کيپيٹل ڈويلپمنٹ اتھارٹی کی نرسرياں اور گرين بيلٹ سيراب ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
محکمے کے مطابق، اس ميں نئی جدت بھی پيدا کی جا سکتی ہے جس کے تحت ٹریٹیڈ پانی سے صنعتی پيمانے پر کاريں دھوئی جا سکتی ہیں جب کہ اسے تعميراتی کام اور زرعی مقاصد کے لیے بھی استعمال کيا جا سکتا ہے۔
پلانٹ کے مکمل طور پر آپريشنل نہ ہونے کی ايک اور وجہ 2015 ميں جڑواں شہروں ميں ميٹرو بس سروس کے لیے سڑک پر ہونے والے کام کے دوران مختلف سيکٹرز کی ٹرنک لائنيں سیوریج لائن سے منقطع ہو گئی تھيں۔
اہلکار کے مطابق، ميٹرو بس سروس کی وجہ سے متاثرہ بڑی لائن جوڑ دی گئی ہے ليکن اب بھی چھوٹی لائنیں مکمل طور پر مرمت نہیں کی جا سکی ہیں۔
انہوں نے مزيد بتايا کہ حال ہی ميں ايئرپورٹ کے لیے بنائی جانے والی ميٹرو بس سروس کے لیے کشمير ہائی وے پر کی جانے والی کھدائی کے دوران پانچ سيکٹرز، جی-10، جی-11، ايف-10، ايف-11 اور ای-10 کی سیوریج لائنیں تاحال مين سیوریج لائن سے نہیں جڑ سکی ہيں۔
سیوریج پلانٹ کے اہلکار کے مطابق "بدقسمتی سے حکومت اربوں روپے کے پروجيکٹس تو شروع کر ديتی ہے، ليکن پھر مرمت اور ديکھ بال کے لیے بجٹ نہیں رکھتی۔"
وزارتِ ماحولیات کے ترجمان محمد سليم کے مطابق برسات کے موسم ميں اسلام آباد کے تمام نالوں ميں انسانی فضلے کے ساتھ ساتھ انڈسٹريز کا آلودہ پانی بھی گرتا ہے، جس کی وجہ سے اسلام آباد کا زير زمين پانی بُری حد تک آلودہ ہو چکا ہے اور دارالحکومت کا زيرِ زمين پانی پينے کے قابل نہیں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزيد بتايا کہ اگرچہ لوگوں نے پينے کی غرض سے گھروں ميں بورنگ کی ہوئی ہے۔ ليکن وہ پانی، پوليو، ٹائیفائیڈ، نمونيا اور پيٹ سے متعلق مختلف بيمارياں پھيلانے کا سبب بن رہا ہے۔
ترجمان کے مطابق، اسلام آباد ميں ماحولياتی بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ گھريلو اور فيکٹريوں کا سيوریج کا پانی ہے جو کھلے نالوں ميں چھوڑ ديا گیا ہے۔