برطانوی پولیس نے ان تینوں افراد کی شناخت ظاہر کر دی ہے جنہوں نے ہفتے کے روز لندن برج کے قریب دہشت گرد حملہ کر کے سات لوگ ہلاک کر دیا تھا۔ ان تین افراد میں شامل 27 خرم شہزاد بٹ اور 30 سالہ رضوان راشد مشرقی لندن کے ڈسٹرکٹ بار کنگ میں رہتے تھے۔ جب کہ تیسرے حملہ آور کی نشان دہی یوسف زغبہ کے نام سے کی گئی ہے جو اطالوی مراکشی شخص تھا۔
بارکنگ میں رہنے والے اکثر لوگوں میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ انتہا پسند، انٹیلی جینس اداروں اور مقامی مسلم کمیونٹی، دونوں کی نظر میں آئے بغیر کیسے یہ کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بارکنگ کا مشرقی مضافاتی علاقہ ایک متنوع ثقافتی لندن کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن ہفتے کے روز پورا علاقہ ا س انكشاف کے بعد ہل کر رہ گیا کہ لندن برج کا دہشت گرد حملہ اسی کمیونٹی سے تعلق رکنے والے افراد نے کیا تھا۔ ایک حملہ آور27 سالہ خرم شہزاد بٹ وہاں ایک اپارٹمنٹ بلاک میں اپنی بیوی اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔
اس بلاک میں رہنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ اس نے بٹ کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں دو سال پہلے اور اس کے بعد بھی اس وقت پولیس کو شکایت کی تھی جب بٹ نے اس کے بیٹے کو، جب وہ ایک مقامی پارک میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، اپنا مذہب تبدیل کر کےاسلام قبول کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔
شہزاد خرم کو جاننے والے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی زمانے میں قریب واقع جابر بن زیاد مسجد میں نماز پڑھتا تھا، لیکن ا سے امام کے ساتھ ایک جھگڑے کے بعد وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔ کمیونٹی کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ تمام مقامی مساجد حملے کی مذمت میں یک زبان اور متحد ہیں۔
بنگلہ دیش ورلڈ وائیڈ نیوز پیپر کے ایڈیٹر مخلص چوہدری کہتے ہیں کہ کمیونٹی کے تمام سرکردہ افراد اور مسجد کے تمام عہدے دار یہ بات زور دے کر کہہ رہے ہیں اگر کوئی یہ دہشت گردی کرتا ہے تو وہ ایسے کسی بھی شخص کو معاف نہیں کریں گے۔ اور یہاں پر، انہیں تشویش بھی ہے میرا خیال ہے کہ اور کمیونٹی کے لوگ اس بارے میں سنجیدہ ہیں کیوں کہ اس سے انہیں نقصان پہنچ رہا ہے ۔ان کا تاثر خراب ہو رہا ہے۔
مسجد کے بالکل سامنے، سینٹ مارگریٹ چرچ آف انگلینڈ اسکول اور بالکل قریب ہی لندن سکھ گردوارہ واقع ہے ۔ بارکنگ کے رہائشیوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تمام عقائد کے لوگوں میں ہم آہنگی ہے اور مل جل کر بھائی چارے کے ساتھے اکٹھے رہتے ہیں۔ لیکن بہت سے اس واقعہ سے ہل کر رہ گئے ہیں۔
ایک مکین گیوسپی فریسنڈا کا کہناہے کہ سچ بات تو یہ ہے کہ اب مجھے اسٹیشن جانے سے ڈر لگتا ہے ۔آپ بس میں بھی نہیں جا سکتے کیوں کہ آپ خوفزدہ ہیں۔
مسلم کمیونٹی ہفتے کے حملے سے کسی بھی طور منسلک ہونے کو مسترد کرتی ہے ۔ علاقے کے بہت سے مسلمانوں کو اپنے عقیدے کے خلاف کسی سخت رد عمل کا خوف ہے۔
بارکنگ کے ایک رہائشی محمد زکی کا کہنا ہے کہ یہاں لوگ بہت دوستانہ ماحول میں رہتے ہیں ۔ اور یہاں ایسی کوئی انتہا پسندی نہیں ہے ۔یہ بات ناقابل قبول ہے کہ صرف برطانیہ ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے ۔ا س لئے انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے ۔ تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ صرف مسلمان ہی برے لوگ ہیں اور باقی سب بہت اچھے لوگ ہیں۔
انٹیلی جینس اداروں کا کہنا ہےکہ حملہ آوروں کا پتا چل گیا ہے لیکن ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ عنقریب کوئی اور دہشت گرد حملہ ہونے والا ہے۔
عہدے دار اس بارے میں چھان بین کر رہے ہیں کہ آیا کمیونٹی میں کچھ اور لوگ ان دونوں کی انتہا پسندی سے آگاہ تھے یا انہوں نے اسے چھپانے میں مدد کی تھی۔ مسلم راہنما دہشت گردوں سے کسی بھی قسم کے تعلق کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ وہ پولیس کے ساتھ بھر پور تعاون کر رہے ہیں۔