|
بارش کے پانی میں ڈوبی سڑکوں، عمارتوں اور گاڑیوں کے مناظر دنیا کے بڑے معاشی مراکز میں شامل دبئی میں تیز رفتار ترقی اور گہماگہمی کے امیج سے میل نہیں کھاتے۔لیکن حالیہ بارشوں نے دبئی سمیت متحدہ عرب امارات کی صحرائی زمین پر اردو کے محاورے کے مطابق جل تھل ایک کردیا ہے۔
گزشتہ دو روز میں ہونے والی بارشوں نے دبئی سمیت یو اے ای کی دیگر ریاستوں میں نظام زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پیر کی شام سے منگل تک ملکی تاریخ میں سے سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’ڈبلیو اے ایم‘ کے مطابق منگل کو ہونے والی بارش ’موسمیاتی اعبتار سے ایک تاریخی واقعہ ہے‘ جو 1949 کے بعد سے اب تک سب سے غیر معمولی ہے جس کے بعد زندگی کو معمول پر لانے کی کوششیں جاری ہیں۔
یو اے ای میں سب سے زیادہ بارش ریاست فجیرہ میں ہوئی ہے جہاں 24 گھنٹوں کے دوران 145 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جب کہ دبئی میں 142 ملی میٹر برسات ریکارڈ کی گئی۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق یو اے ای کی ساتوں ریاستوں میں طوفانی بارشوں کے پیش نظر اسکول بند ہیں اور سرکاری محکموں کے ملازمین بھی دفاتر نہیں پہنچ پائے ہیں۔ غیر معمولی بارش نے دبئی اور شارجہ سمیت مختلف علاقوں کی سڑکیں، رہائشی عمارتیں اور انفرااسٹرکچر کو متاثر کیا ہے۔
منگل کی شام سے اگرچہ بارش کا سلسلہ تھم گیا ہے۔ لیکن طوفانی بارشوں کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کا معاشی مرکز دبئی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شامل اس کے ایئر پورٹ پر فلائٹ آپریشن بھی تعطل کا شکار ہے۔
عملے اور مسافروں کے ایئر پورٹ پہنچنے میں مشکلات کے باعث بدھ کو بھی دنیا کی بڑی ایئرلائنز میں شامل ایمریٹس کی پروازوں کا شیڈول بری طرح متاثر ہوا ہے۔ دبئی کی کئی شاہراہوں پر برسات کا پانی جمع ہے اور کئی علاقوں میں میٹرو سروس بھی معطل ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو یو اے ای کے کئی ریگستانی علاقوں میں 254 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جو دو برس کی اوسط سے بھی زائد بنتی ہے یعنی ایک دن میں دو سال جتنی بارش ہو گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھاری مقدار میں بارش ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میں ہائی ویز کے حصے بھی زیرِ آب آگئے ہیں۔
یو اے ای میں اب تک بارش سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں تاہم یو اے ای کی مقامی میڈیا کے مطابق راس الخیمہ میں برساتی ریلے میں گاڑی پھنسنے سے ایک شخص ہو گیا ہے۔
یو اے ای کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک بحرین، قطر اور سعودی عرب میں بارشیں جزیرہ نما عرب سے گزر کر خلیجِ عمان کی جانب جانے والے طوفانی سسٹم کی وجہ سے ہو رہی ہں۔بارشوں سے سب سے زیادہ تباہی عمان میں آئی ہے جہاں اب تک 19 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
انفراسٹرکچر اور بڑھتی ہوئی بارش
طوفانی بارشوں نے دبئی مال اور مال آف دی ایمریٹس جیسے بڑے کاروباری مراکز کو بھی متاثر کیا ہے جہاں بعض سوشل میڈیا پوسٹس کے مطابق گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہوگیا ہے۔
بارش کی وجہ سے بعض سڑکیں پوری طرح تباہ ہو چکی ہیں اور کئی رہائشی علاقوں میں بارش کا پانی گھروں میں بھی داخل ہو گیا ہے جہاں مقامی انتظامیہ امدادی سرگرمیاں بھی کررہی ہیں۔
این ایم سی نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور سیلابی صورتِ حال کا سامنا کرنے والے علاقوں سے دور رہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این بی سی' نے سائنسی جریدے نیچر کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ یو اے ای میں گزشتہ پانچ برسوں سے برسات میں اضافہ ہورہا ہے اور ممکنہ طور پر آئندہ برسوں میں اس میں 15 سے 30 فی صد اضافہ متوقع ہے۔
سی این بی سی کے مطابق متحدہ عرب امارات میں خطے کے موسمی حالات اور انتہائی کم بارشوں کے پیٹرن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انفراسٹرکچر اور عمارتوں کو ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے سڑکوں، عمارتوں اور ہوائی اڈوں میں پانی داخل ہو گیا ہے اور نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی یا مصنوعی بارش؟
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق بعض میڈیا رپورٹس میں دبئی کے نیشنل سینٹر آف میٹرولوجی(این سی ایم) کے حوالے سے بیان کیا گیا تھا بارش سے پہلے مصنوعی بارش کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ کے لیے ساتھ چھ سے سات پروازیں روانہ کی گئی تھیں۔
واضح رہے کہ یو اے ای وسیع ریگستانی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں زیر زمین پانی کے ذخائر بہت محدود ہیں۔ ان ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے یو اے ای میں کلاؤڈ سینڈنگ کے ذریعے مصنوعی بارش کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا تھا۔
تاہم بدھ کو این سی ایم نے مصنوعی بارشوں کے لیے کوئی کلاؤڈ سیڈنگ مشن روانہ کرنے کی تردید کی ہے۔ یہ ادارہ یو اے ای میں مصنوعی بارش کرانے کا ذمے دار ہے۔
موسموں میں آنے والی شدت پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا جائزہ لینے والے ماہر فریڈرک اوٹو کا کہنا ہے کہ اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ یو اے ای میں ہونے والی بارشوں کا تعلق عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے ہو۔
واضح رہے کہ حالیہ برسات سے متاثر ہونے والے ممالک یو اے ای اور عمان نے گزشتہ برس ماحولیات سے متعلق کوپ 28 کانفرنس کی میزبانی کی تھی جس میں بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت کے باعث شدید بارشوں اور سیلاب کے بڑھتے ہوئے خدشات کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے حاصل کی گئی معلومات شامل ہیں۔