افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ انہوں نے پاکستانی قیادت سے کہا ہے کہ وہ طالبان پر اپنا تمام اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ امن عمل کو مدد مل سکے۔
عبداللہ عبداللہ پاکستان کا تین روزہ سرکاری دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس افغانستان روانہ ہو گئے ہیں۔ اس دورے کے دوران انہوں نے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں۔
وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو کے دوران اِن ملاقاتوں کا احوال بتاتے ہوئے عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران انہوں نے امن کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے پر تبادلہ خیال کیا جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
ان کے بقول "میرے خیال میں پاکستان کی سیاسی قیادت، فوج اور دیگر ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں جاری امن مذاکرات کی حمایت کا پیغام بھیجا ہے جو افغانستان کے مفاد میں ہے۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے افغان امن عمل میں کردار کے بعد یہ ضروری تھا کہ میں پاکستان کا دورہ کروں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عبداللہ عبداللہ گزشتہ دورِ حکومت میں جب افغانستان کے چیف ایگزیکٹو تھے تو انہوں نے پاکستان کے دورے کی دعوت کو کئی بار ٹھکرا دیا تھا۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا افغان حکومت اور طالبان ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کر رہے ہیں، حالات کے بدلاؤ نے اُن کے ذہن کو بدل دیا ہے۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ افغانستان سمیت اس خطے میں اور دنیا بھر میں امن کی جانب کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر اس دوران بڑھتے تشدد کی وجہ سے ان کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس فروری کے آخر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور دوسرے مرحلے میں فریقین کے درمیان بین الافغان مذاکرات بھی شروع ہو گئے ہیں۔
اس سلسلے میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حال ہی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔
ایران نے بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیوں نہ کی؟
بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں ایران کے کسی نمائندے کی عدم موجودگی سے متعلق بات کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ نے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ جاری کشمکش کی وجہ سے ایران نے دوحہ میں ہونے والی امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی۔
اُن کے بقول ایران کو بھی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن اس وقت تہران کی امریکہ کے ساتھ کشیدگی میں شدت آ گئی ہے اور اس طرح کی صورتِ حال بعض اوقات آپ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ایران، افغان امن مذاکرات کے حق میں ہے اور وہ افغانستان کا ایسا ہمسایہ ہے جو لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔ انہوں نے اس امر سے بھی اتفاق کیا کہ ایران کے افغانستان سے متعلق جائز خدشات اور مفادات ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایران کے مختلف طالبان گروہوں کے ساتھ تعلقات کا مذاکرات کے دوران فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے افغانستان میں امن کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے واشنگٹن ڈی سی سے تعلق رکھنے والے ایک ریسرچ گروپ 'یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس' کو بتایا ہے کہ پچھلے ہفتے افغان امن مذاکرات میں ایران کی جانب سے تعاون میں اس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات آڑے آ رہے تھے۔
زلمے خلیل زاد کے مطابق ’’ایران امریکہ کو افغانستان میں پھنسائے رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور ایسا وہ اس وقت تک کرنا چاہتا ہے جب تک امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہو جائے۔
ایران نے اپنے سرکاری خبر رساں ادارے اسلامی جمہوریہ نیوز ایجنسی (آئی آر این اے) کے ذریعے اِن الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ افغان امن مذاکرات کا حامی ہے۔
آئی آر این اے نے ایران کے خارجہ امور کے ڈپٹی وزیر عباس آراگچی کا حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں امریکی عزائم پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔
عباس آراگچی کے بقول ’’ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ پر کسی طور پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے اور امریکہ کی اس خطے میں موجودگی اس خطے کے لیے خطرناک ہے اور اس کی وجہ سے مزید بے چینی پھیلے گی۔
وائس آف امریکہ کو انٹرویو کے دوران عبداللہ عبداللہ نے اِن خدشات کی نفی کی کہ افغانستان کی حکومت مذاکرات کے سلسلے میں تقسیم کا شکار ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغان سیاسی قیادت بہت سے گروہوں پر مشتمل ہے اور ان لوگوں نے پچھلے دو عشروں سے جمہوریت پر عمل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام افغان قیادت امن مذاکرات کے حق میں ہے اور اس سلسلے میں ان کے مابین اختلافات کی نوعیت تکنیکی ہیں۔
عبداللہ عبداللہ کے بقول اگر امریکہ افغانستان سے اپنی تمام فوج واپس بلا لیتا ہے تو ایسی صورت میں اس کا اثر تو ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ "یہ ہم ہی ہیں جنہیں مل کر افغان تنازع کا کوئی حل نکالنا ہے۔ تاکہ ہم ساتھ مل کر امن سے رہ سکیں اور ہمارے شہریوں کو کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ نہ ہی ہمارے ہمسایوں کو، اور نہ ہی تمام بین الاقوامی برادری کو۔‘‘