"آج میرے ڈھائی سالہ بیٹے نے فقط اس وجہ سے مجھ سے منہ موڑ لیا کیوں کہ میں اس کے لیے ببل گم نہیں لا سکا۔ شام کو گھر آتے ہوئے دور سے جب میں اپنی جیب سے ببل نکالتا تھا تو وہ میری جانب خوشی سے پھلانگتا ہوا چلا آتا تھا جس کے بعد میں اسے گلے لگا کر پیار کرتا اور وہ بھی میرے ماتھے یا چہرے کو چوم کر اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتا۔"
یہ الفاظ ہیں کابل میں مقیم سابق افغان بارڈر پولیس اہل کار شاہ باز خان کے جو لاکھوں افغان شہریوں کی طرح اس وقت معاشی مسائل سے دوچار ہیں۔
طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد ملک میں سیکیورٹی کی صورتِ حال میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ شہری بلا خوف و خطر بازار، پارک اور گلیوں میں نظر آتے ہیں اور شام کے بعد بھی اکثر بازار کھلے رہتے ہیں۔
البتہ شاہ باز خان کے لیے امن و امان کی موجودہ صورتِ حال زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کیوں کہ انہیں اب معاشی مسائل نے گھیرا ہوا ہے۔
طالبان عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں، تمام سابق اہلکاروں کو اپنی ڈیوٹی پر رپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے۔ تاہم بہت کم افراد ہی ڈیوٹی پر حاضر ہوئے ہیں۔ شاہ باز خان کے مطابق انہیں ابھی تک کوئی باقاعدہ نوٹس نہیں ملا ہے۔ وہ اس سلسلے میں اپنے دیگر ساتھیوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ لیکن تاحال کسی نے بھی حاضری نہیں دی ہے۔
ان کے مطابق ابھی تک تنخواہ کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں ہے اور وہ طالبان کی طرح بغیر تنخواہ کے ان کے نظام میں کام نہیں کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔
طالبان کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالے لگ بھگ دو ماہ ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ان کا خوف آہستہ آہستہ زائل ہو رہا ہے۔ تاہم گرتی ہوئی معیشت افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ طالبان قیادت کو بھی اس صورتِ حال کا علم ہے اور وہ وقتاً فوقتاً اس سلسلے میں اپنی کوششوں کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔
اس وقت افغانستان کی معیشت منجمد ہے۔ امریکہ سمیت بعض مغربی ممالک نے امداد کی غرض سے افغانستان کو دی جانے والی رقم منجمد کردی ہے۔ طالبان ملک کی موجودہ معاشی صورتِ حال کے حوالے سے مغربی ممالک پر تنقید کر رہے ہیں اور وہ رقم کی فوری بحالی چاہتے ہیں۔
شاہ باز خان کہتے ہیں کہ وہ ایک ہفتے سے کابل بینک کے سامنے صبح سے لائن میں لگتے ہیں۔ لیکن تاحال ان کی باری نہیں آئی ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ حد مقرر کی گئی تھی کہ ایسے افراد جن کا افغان کرنسی میں اکاؤنٹ ہے وہ ہفتے میں بیس ہزار افغانی جب کہ ڈالر اکاؤنٹ رکھنے والے دو سو امریکی ڈالر نکال سکتے ہیں۔
تاہم شاہ باز خان کا کہنا ہے کہ شروع کے دنوں میں ایسا ضرور تھا مگر اب بینکوں میں رقم کم رہ گئی ہے۔ جس کے باعث کسی کو پانچ ہزار تو کسی کو دس ہزار افغانی ملتے ہیں۔ اس کے برعکس گھروں کے اخراجات اور قرضے آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔
کاردان یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے سابق سربراہ فہیم سادات کا کہنا ہے کہ اگرچہ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت میں کرپشن عروج پر تھی تاہم پرائیویٹ سیکٹر فعال تھا۔ جس کی بنیادی وجہ امریکہ اور نیٹو کا فعال کردار تھا۔ اور مختلف منصوبوں کے لیے اچھے خاصے فنڈز بھی ملتے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فہیم سادات نے مزید بتایا کہ عالمی برادری کی جانب سے افغانستان میں ترقیاتی کاموں کی فراوانی تھی جس کی وجہ سے کثیر تعداد میں لوگ بر سر روزگار تھے۔
اُن کے بقول اب حالات ایسے ہیں کہ سب کچھ مکمل طور پر رک چکا ہے۔ ایک جانب کئی لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں تو دوسری جانب کئی منصوبے بھی بند ہو گئے ہیں جو بیرونی فنڈنگ پر چل رہے تھے۔
سڑک کنارے کباڑ مارکیٹس میں اضافہ
دوسری جانب لوگ اپنے گھروں کا سامان بیچنے پر مجبور ہیں۔ سڑک کنارے کباڑ مارکیٹس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صوبہ پکتیا سے تعلق رکھنے والے سخی گل کباڑ مارکیٹ میں اپنے گھر سے کمبل، صوفہ سیٹ، واشنگ مشین، ٹیلی وژن اور چارپائیاں فروخت کرنے کے لیے لائے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اگرچہ یہ سامان گھر کے لیے بھی ضروری تھا تاہم موجودہ وقت میں ترجیحات بدل گئی ہیں۔ روزگار کی کمی کے باعث ان کے پاس اس سامان کو بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
سخی گل کے مطابق اس سے قبل ان کا کاروبار اچھا چلتا تھا اور روزگار کی صورتِ حال اتنی خراب نہیں تھی۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو وہ کابل سے کسی اور مقام پر منتقلی کا سوچ سکتے ہیں۔
اسی بازار میں موجود جنت گل بھی اپنے گھر کا سامان فروخت کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ان کے سامان میں چھوٹے بچے کی گاڑی اور بے بی واکر بھی شامل تھا۔ انہوں نے افسردہ لہجے میں بتایا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کا سامان تک فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
کابل شہر کے سڑک کنارے ان بازاروں میں لوگ تھرماس، کافی مشین، سائیکل، کپڑے، چمچے تک فروخت کر رہے ہیں۔
'افغانستان میں تمام کاروبار بند ہو چکے ہیں'
البتہ بعض لوگوں کے لیے اس صورتِ حال میں نئی راہیں بھی کھلی ہیں۔
جان آغا کا شمار انہیں افراد میں ہوتا ہے۔ وہ کابل سے ملحقہ ضلع سروہی کے رہائشی ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ روزانہ لوگوں سے کم قیمت پر چھوٹا سامان خریدتے ہیں اور شام تک پانچ سو تک کا منافع کما لیتے ہیں۔ انہیں اس کاروبار کو شروع کیے ہوئے دو ہفتے ہو چکے ہیں۔
ان کے بقول، وہ زیادہ تر سامان ایسے لوگوں سے خریدتے ہیں جو بیرون ملک جا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد سے سامان مناسب دام میں مل جاتا ہے۔
جان آغا کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں تمام کاروبار بند ہو چکے ہیں۔ ایسے میں اس نئے کاروبار نے ان کی زندگی کو تھوڑا بہت سہارا دیا ہے۔
خیال رہے کہ عالمی امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ افغانسان ایک نئے انسانی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ خوراک کی عالمی تنظیم نے حالیہ دنوں میں ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 90 فی صد افغان باشندے پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے محروم ہوئے ہیں۔
'ہر کوئی افغانستان سے نکلنے کی سوچ رہا ہے'
کابل سمیت افغانستان میں تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کے آثار نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عارضی خیموں میں رہائش پذیر افراد کے مسائل بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ دارالحکومت کے وسط میں قائم کیمپ میں سیکڑوں افراد بے یار و مددگار ہیں۔
شریفہ بی بی کا تعلق صوبہ بدخشاں سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان ہونے والی لڑائی میں ان کا گھر تباہ ہوا۔ اس لیے انہوں نے کابل کا رخ کیا ہے۔
ان کے بقول، پہلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شام کو کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے جس سے ان کے چھ بچوں کا گزارہ ہو جاتا تھا۔ تاہم اب ہر طرف بے ترتیبی ہے اور ہر کوئی افغانستان سے نکلنے کی سوچ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں انہیں آنے والے موسمِ سرما کی فکر لاحق ہے کہ وہ بے سرو سامانی کی حالت میں کیسے اپنے بچوں کے لیے خوراک اور سر چھپانے کا بندوبست کریں گی۔