افغان سفیر کی صاحبزادی کا مبینہ اغوا، 'افغان تحقیقاتی ٹیم کو پاکستان آنے کی اجازت دی ہے'

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان میں افغان سفیر کی صاحبزادی کے اغوا کے حوالے سے افغان حکومت نے تحقیقاتی ٹیم بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جس پر پاکستان نے اس ٹیم کو آنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس کیس میں ہماری تحقیقات میں بہت سے شواہد موجود ہیں، ہمیں افغان سفیر اور ان کی صاحبزادی کا مزید تعاون درکار ہے، جبکہ افغان سفیر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ ترکی روانہ ہوچکے ہیں۔

پیر کی شام دفترخارجہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بیٹیوں کا احترام سب پر واجب ہے۔ میں نے مناسب سمجھا کہ افغان وزیر خارجہ سے رابطہ کروں اور حقائق سے آگاہ کروں اور آج ان سے رابطہ کرکے تمام تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ انہیں یہ تسلی دی ہے کہ پاکستان مکمل تعاون کا ارادہ رکھتا ہے۔

شاہ محمود نے کہا کہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھا جائے گا اور تمام تفصیلات سے میڈیا کو بھی آگاہ رکھا جائے گا۔ افغان ٹیم تحقیقات میں شامل ہونے کے لیے آنا چاہتی ہے اور ہم نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان اس بار افغان پناہ گزینوں کو قبول نہیں کر سکتا: معید یوسف

نیوز کانفرنس میں موجود آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمٰن نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت حساس کیس ہے اور اسلام آباد شہر میں ایسا معاملہ رپورٹ ہونا ہمارے لیے ایک چیلنج تھا۔

آئی جی کے مطابق، یہ ایک بلائنڈ کیس تھا، جس کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ اس کیس کو ٹریس کرنے کے لیے ہم نے پانچ ٹیمیں تشکیل دیں جنہوں نے تمام ڈیٹا سمیت مشکوک افراد کو گرفتار کرنے پر کام کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کے دوران تین سو سے زائد کیمروں کو چیک کیا گیا جن کی سات سو گھنٹوں سے زائد کی ریکارڈنگ دیکھی گئی۔ ہم نے دو سو بیس لوگوں کو انٹرویو کیا اور ہماری تمام ٹیمیں دن رات مل کر اس پر کام کرتی رہی۔ اسلام آباد پولیس کے تین سو اہلکار اس کیس پر دن رات کام کر رہے ہیں۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ہم نے افغان سفیر کی صاحبزادی کی طرف سے درخواست آنے کے بعد ان کے بتائے گئے تمام راستوں کو دوبارہ چیک کرلیا ہے۔ ان کے مطابق یہ گھر سے پیدل نکلیں، رانا مارکیٹ سے ٹیکسی کی اور کھڈا مارکیٹ سے گفٹ خریدا۔ ہم نے اس ٹیکسی ڈرائیور کو ٹریس کرلیا اور تمام راستہ چیک کیا، اس کے بعد یہ دوسری ٹیکسی میں راولپنڈی گئیں۔

شکایت کے مطابق، دوسری ٹیکسی والے نے اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ لہذا ہم نے اس کو بھرپور طریقے سے چیک کیا، دوسری ٹیکسی کے ڈرائیور نے تصدیق کی کہ وہ کھڈا مارکیٹ سے راولپنڈی صدر پہنچے۔

اس بات کو کنفرم کرنے کے لیے تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز موجود ہیں۔ راول پنڈی صدر کے آٹھ کیمروں کی ریکارڈنگ ملی ہے اور اس کے بعد صدر سے دامن کوہ تک ٹیکسی انہیں لیکر گئی۔ دامن کوہ والے کیمرے میں ان کی موجودگی کا پتا چلا۔

انہوں نے بتایا کہ افغان سفیر کی صاحبزادی دامن کوہ سے سیکٹر ایف سکس اور اس کے بعد ایف نائین پارک گئیں۔ ایف نائن پارک میں انہوں نے کسی سے فون لیکر سفارت خانے فون کیا اور وہاں سے گاڑی لیکر اپنے گھر پہنچیں، اس دوران جس شخص سے فون لیکر فون کیا وہ بھی سامنے آگیا ہے۔ ہمارے پاس تمام روٹ اور کیمروں کے شواہد موجود ہیں، ہمارے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے، لیکن ہمیں افغان سفیر کی صاحبزادی کی مدد کی ضرورت ہے۔

افغان سفیر کی صاحبزادی کے اغوا کے خلاف کابل میں مظاہرہ

مشیر قومی سلامتی معید یوسف بھی پریس کانفرنس میں موجود تھے، جن کا کہنا تھا کہ پاکستان ہائبرڈ وار فئیر کا نشانہ بنتا رہا ہے اور بن رہا ہے۔

بقول معید یوسف، ''ای یو ڈس انفو لیب کی کارروائیاں اور بھارت کی جھوٹی خبریں سب کو یاد ہیں۔ پاکستان کے خلاف بیانیہ بنایا جارہا ہے۔ افغان سفیر کی صاحبزادی کے معاملہ میں بھی ہیش ٹیگ پاکستان کے خلاف بنائے جاتے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں''۔

معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کے خلاف محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ کشمیر اور بلوچستان ایشو پر پاکستان مخالف بولنے والے اکاؤنٹس سے اس ایشو پر بات کی جارہی تھی۔ اس معاملہ کے دوران فیک نیوز پھیلانے کے لیے جعلی تصاویر کا سہارا لیا گیا اور دنیا میں پھیلایا گیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پاک افغانستان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔

معید یوسف نے کہا کہ ''پاکستان کو افغانستان میں 'ایسکیپ گوٹ' بنایا جارہا ہے۔ اپنی ناکامیوں کو پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، ان تمام معاملات پر ہماری نظر ہے اور اس بارے میں سوشل میڈیا کمپنیوں سے بات کی جارہی ہے۔''

وزیرخارجہ نے کہا کہ کچھ قوتیں امن اور استحکام کے عمل کو خراب کرنا چاہتی ہیں، حالیہ دنوں میں وزیراعظم عمران خان نے افغان صدر اشرف غنی سے بھی کہا کہ مختلف شخصیات کی طرف سے بیانات داغ دیے جاتے ہیں جنہوں نے معاملات کو بگاڑا ہے۔ ہم خطے کے امن اور معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہیں، کوئی ایسا جملہ نہیں کہنا چاہتے جو حالات کو بگاڑے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا انٹرسٹ ہے کہ تحقیقات مکمل ہوں، نتیجے کے قریب تر ہیں لیکن حتمی انجام تک پہنچانے کے لیے تفتیش میں شامل ہوں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان سفیر اہل خانہ کے ساتھ ترکی چلے گئے ہیں، ان کو واپس آکر شامل ہونا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ افغان حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ان کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں افغان سفیر کا یہاں ہونا افغان امن عمل کے لیے ضروری ہے۔

وزیرخارجہ نے افغان سفیر کی صاحبزادی کے اغوا ہونے یا نہ ہونے کے سوال کا جواب دینے سے احتراز کیا اور کہا کہ معاملے کی تفتیش جاری ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیرداخلہ شیخ رشید نے گذشتہ روز اس معاملہ پر کہا تھا کہ افغان سفیر کی صاحبزادی اغوا نہیں ہوئیں تھیں اور وہ جہاں بھی گئی تھیں، اپنی مرضی سے گئی تھیں۔

اس واقعہ کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی کشیدگی ہے اور افغاں حکومت نے اپنے سینئر سفارتکاروں اور سفیر کو واپس طلب کرلیا ہے جبکہ پاکستان نے افغانستان سے اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے اسلام آباد طلب کرلیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان: صحافی خواتین کی تشویش کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟

اس سے قبل، پاکستان دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے افغان ہم منصب محمد حنیف اتمر کے ساتھ ہونے والے ٹیلیفونک رابطے میں انہیں 16 جولائی 2021 کو ہونے والے واقعے پر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات سے آگاہ کیا۔ وزیر خارجہ نے افغان ہم منصب کو یقین دلایا ہے کہ حکومت پاکستان ملزمان کی جلد گرفتاری اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔

بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزارتِ خارجہ مروجہ سفارتی روایات سے بخوبی آگاہ ہے۔ پاکستان میں قائم افغان سفارت خانے اور قونصل خانے کی سیکیورٹی میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ افغان حکومت، پاکستان کی سنجیدہ کاوشوں کو پیش نظررکھتے ہوئے افغان سفیر اور سینئر سفارت کاروں کو پاکستان سے واپس بلانے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔

ادھر، افغان وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے اس واقعے کی تحقیقات میں ذاتی دل چسپی لینے پر وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا اور افغان سفارت خانے اور قونصل خانے کی سیکیورٹی بڑھانے سے متعلق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی کاوشوں کو سراہا۔

افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایسے میں جب افغان سفارت کار کی صاحبزادی کے اغوا کے معاملے کی تحقیقات ہونے والی ہیں، غیر پیشہ وارانہ اور قبل از وقت رائے دینا کہ وہ اغوا نہیں ہوئیں، باہمی تعلقات کو خراب کرنے کا باعث بنیں گی، جو افسوس ناک ہے۔

افغان وزارت خارجہ کا یہ بیان پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے انٹرویو کے رد عمل میں سامنے آیا، جس میں مبینہ طور پر شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ افغان سفیر کی صاحبزادی اغوا نہیں ہوئیں۔ تاہم، کیس رجسٹر کر لیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر پچھلے تین روز سے اس واقعے کے بارے میں اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔

اخبار دی نیوز کے اداراجاتی صفحے کی مدیر زیب النسا برکی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ سوچیں اگر یہ کسی مغربی ملک کے سفیر کی بیٹی ہوتیں تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سازشی مفروضات میں جائے بغیر اس واقعے کی مکمل تحقیق کرنی چاہئے۔


آن لائین حقوق پر کام کرنے والے ادارے بولو بھی کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ سلسلہ علیخیل پر تشدد پر دئے گئے ردعمل بہت گرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کہاں اور کیوں گئیں تھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان پر تشدد کیا گیا۔ اور اس بات کی مکمل تفتیش ہونی چاہئے۔


جب کہ پچھلے تین روز سے اس معاملے کو لے کر پاکستانی اور افغان ٹوئٹر میں گرما گرم بحث اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے اور سلسلہ علیخیل کا ہیش ٹیگ آج بھی مسلسل ٹرینڈ کرتا رہا۔