امریکہ کی جانب سے افغانستان میں کی جانے والی تعمیرِ نو کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے قائم سرکاری ادارے (سیگار) کی ایک رپورٹ میں کہا گہا ہے کہ افغانستان سے اگست میں امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد کابل حکومت کو اپنی بقا کی جنگ کا سامنا ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ طالبان اسے زیر کر لیں۔
سیگار کی رپورٹ میں افغانستان کی صورتِ حال کے تاریک پہلو اور زیرِ گردش خدشات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ افغان فورسز کسی بھی قسم کی مؤثر مزاحمت کے لیے تیار نہیں ہیں۔
بدھ کو سامنے آنے والی اسپیشل انسپکٹر جنرل جان سوپکو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور رجحانات افغان حکومت کے لیے سازگار نہیں۔ اگر کابل حکومت نے ان کے تدارک کے لیے اقدامات نہ کیے تو اس کے قیام کو بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ افغانستان کی نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) نے کچھ اضلاع پر دوبارہ قبضہ کیا ہے جب کہ افغانستان کی حکومت اب بھی تمام 34 صوبوں کے صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ البتہ عوام سے ملنے والی معلومات کے مطابق سرکاری فورسز طالبان حملوں کے سامنے ششدر ہیں اور تیار نہیں اور وہ دفاعی حالت میں ہیں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپریل میں افغانستان سے رواں برس فوجی انخلا مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد امریکی حکام اس حوالے سے محتاط رہے ہیں کہ افغان حکام کو در پیش چیلنجز کو کم ظاہر نہ کیا جائے۔
گزشتہ اتوار کو امریکہ کی فوج کی سینٹرل کمان کے کمانڈر جنرل کینتھ میکنزی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان حکومت ایک سخت امتحان کا سامنا کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ طالبان مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ناگزیر ہیں البتہ اس لڑائی کا پیشگی نتیجہ موجود نہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے صدر اشرف غنی دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ افغان فوج شہری علاقوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ دوبارہ متحرک ہو گی اور بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
امریکی فضائیہ نے افغان فورسز کی مدد کے لیے کارروائیاں بھی کی ہیں۔ جب کہ حکام نے یقینی دہانی کرائی ہے کہ فضائی کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک طالبان اپنی عسکری کارروائی کی شدت میں کمی نہیں لاتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیگار کی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ طالبان نے ایسے کوئی بھی امکانات پیش نہیں کیے کہ جس پر یقین کیا جا سکے کہ وہ اپنی کارروائیوں کی شدت میں کمی لائیں گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے حکام طالبان سے مسلسل فروری 2020 میں ہونے والے امن معاہدے کی رو سے عسکری کارروائیاں کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں البتہ طالبان نے ایسا نہیں کیا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ 29 فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد ہر سہ ماہی کی سامنے آنے والی رپورٹ میں واضح ہو رہا ہے کہ ’دشمن کے حملوں‘ میں گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ طالبان نے جہاں عسکری کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے وہیں ان کو نفسیاتی برتری بھی حاصل ہوئی ہے۔
یورپ اور امریکہ کے عسکری اتحاد 'نیٹو' کے حکام نے سیگار کو بتایا ہے کہ افغان نیشنل آرمی کے دستے عمومی طور پر کوئی بھی آپریشن کرنے سے اس وقت تک کتراتے ہیں جب تک افغان اسپیشل آپریشنز فورسز کے دستے موجود نہ ہوں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جب اسپیشل آپریشنز فورسز کے دستے آ جاتے ہیں تو ان کا بھی غلط استعمال کیا جاتا ہے اور ان سے وہ کام کرائے جاتے ہیں جو عمومی دستوں کو انجام دینے چاہیئں جیسے کہ راستوں سے رکاوٹیں ہٹانا عمومی فوجی اہلکاروں کا کام ہے۔
سیگار کی رپورٹ میں ایک بار پھر انتباہ کیا گیا ہے کہ افغان ایئر فورس بھی مستقبل میں آپریشنز کے موجودہ پیمانے کو برقرار نہیں رکھ سکے گی۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ افغانستان کی ایئر فورس کے طیارے اس کی دیکھ بھال کے مقررہ دورانیے کے مطابق نہیں دیکھے جا رہے اور ان کی پروازیں مقررہ پروازوں سے 25 فی صد زائد ہیں۔ یہ ایک پریشان کن صورتِ حال ہے۔
افغان ایئر فورس کو عمومی طور پر طیاروں کی مینٹیننس اور پرزوں کی فراہمی کے لیے امریکہ کے کنٹریکٹرز پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سیگار کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے باعث کنٹریکٹر کی تعداد بھی نصف ہو چکی ہے۔