افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نامعلوم سمت سے آنے والے تین راکٹ صدارتی محل کے قریب آ کر گرے جس کے نتیجے میں وہاں موجود املاک کو نقصان پہنچا۔
کابل کے ریڈ زون میں اس وقت راکٹ فائر ہوئے جب صدر اشرف غنی کو عید کی سرکاری چھٹی کے موقع پر قوم سے خطاب کرنا تھا۔
افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان میر واعظ استنکزئی کے مطابق تینوں راکٹوں نے ریڈ زون کے مختلف مقامات کو نشانہ بنایا اور بظاہر لگتا ہے کہ یہ تینوں کسی پک اپ ٹرک سے فائر کیے گئے تھے۔
ترجمان کے مطابق راکٹ حملوں میں فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں تاہم جائے وقوعہ پر ایک تباہ شدہ گاڑی کو دیکھا جا سکتا ہے۔
صدارتی محل کے قریب راکٹ حملوں کی فوری طور پر کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق راکٹ حملے کے وقت افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی صدارتی محل میں موجود تھے۔
راکٹ حملوں کے بعد صدر اشرف غنی نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ عید افغان سیکیورٹی فورسز کے ان جوانوں کے نام کرتے ہیں جو خاص طور پر گزشتہ تین ماہ کے دوران اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران قربانی دے چکے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ طالبان امن کے لیے نہ ہی راضی ہیں اور نہ ہی ان کا اس طرح کا کوئی ارادہ ہے۔ اس کے برعکس حکومت نے امن کے لیے ارادہ و عزم ظاہر کیا اور اس سلسلے میں قربانیاں بھی دیں۔
افغان صدر نے امن مذاکرات کے لیے گزشتہ برس طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کو 'بڑی غلطی' قرار دیا۔ ان کے بقول ہم نے امن کے حصول کے لیے طالبان کے قیدی رہا کیے لیکن طالبان نے اب تک امن مذاکرات میں بامقصد دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
افغان صدر نے پڑوسی ملک پاکستان پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر طالبان کا تسلط نہیں چاہتا لیکن پاکستان کا میڈیا افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے مہم چلا رہا ہے۔
واضح رہے کہ کابل حکومت کی جانب سے طالبان کو پناہ دینے اور جنگجوؤں کی مدد کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے لیکن پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں جس کے دہشت گرد پاکستان کی فوج کو نشانہ بناتے ہیں۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'اے ایف پی' اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔