افغان صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پڑوسی ملک ابتری کا شکار ہوتا جارہا ہے۔
واشنگٹن —
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ایک پاکستانی عالمِ دین کے اس بیان پر سخت برہمی ظاہر کی ہے جس میں مبینہ طور پر افغانستان میں خود کش حملوں کی حمایت کی گئی تھی۔
پیر کو کابل میں 'نیٹو' کے سیکریٹری جنرل آندرے فوغ راسموسن کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی عالمِ دین کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پڑوسی ملک دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں سنجیدہ نہیں۔
صدر کرزئی نے یہ بیان 'پاکستان علماء کونسل' کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کے ایک ٹی وی انٹرویو کے ردِ عمل میں دیا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر افغانستان میں خود کش حملوں کو جائز قرار دیا تھا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک افغان ٹی وی کو دیے جانے والے اپنے انٹرویو میں مولانا اشرفی نے کہا تھا کہ چوں کہ افغانستان پر حملہ کرنے والی نیٹو افواج غاصب ہیں لہذا ان کے خلاف خود کش حملے جائز ہیں۔
خیال رہے کہ مولانا اشرفی اس پاکستانی وفد کا حصہ ہیں جسے عنقریب دونوں ملکوں کے علمائے دین کے کابل میں ہونے والے مشترکہ اجلاس میں شریک ہونا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران میں ایک سوال پر صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت نے مولانا اشرفی کو مجوزہ کانفرنس کا مندوب نامزد کیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید پاکستانی حکومت ان کےموقف سے متفق ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان دہشت گردی کےخلاف حقیقی جدوجہد چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ پاکستانی حکومت اس حقیقت کا ادراک کرے کہ دونوں ملک ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں۔
ان کے بقول، "اس آگ کو بجھانے میں پاکستانی حکومت کا کردار انتہائی اہم اور ضروری ہے"۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پڑوسی ملک ابتری کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی حکام دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ، "صورتِ حال ہر ایک کے کنٹرول سے نکلی جارہی ہے اور ایسا ہونا نہ تو دونوں ملکوں اور نہ ہی خطے کے مفاد میں ہے"۔
پریس کانفرنس میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے بھی پاکستانی عالمِ دین کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرحدوں کے آس پاس موجود شدت پسندوں کو لگام دینے کے لیے مزید اقدامات کرے۔
پیر کو کابل میں 'نیٹو' کے سیکریٹری جنرل آندرے فوغ راسموسن کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی عالمِ دین کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پڑوسی ملک دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں سنجیدہ نہیں۔
صدر کرزئی نے یہ بیان 'پاکستان علماء کونسل' کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کے ایک ٹی وی انٹرویو کے ردِ عمل میں دیا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر افغانستان میں خود کش حملوں کو جائز قرار دیا تھا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک افغان ٹی وی کو دیے جانے والے اپنے انٹرویو میں مولانا اشرفی نے کہا تھا کہ چوں کہ افغانستان پر حملہ کرنے والی نیٹو افواج غاصب ہیں لہذا ان کے خلاف خود کش حملے جائز ہیں۔
خیال رہے کہ مولانا اشرفی اس پاکستانی وفد کا حصہ ہیں جسے عنقریب دونوں ملکوں کے علمائے دین کے کابل میں ہونے والے مشترکہ اجلاس میں شریک ہونا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران میں ایک سوال پر صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت نے مولانا اشرفی کو مجوزہ کانفرنس کا مندوب نامزد کیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید پاکستانی حکومت ان کےموقف سے متفق ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان دہشت گردی کےخلاف حقیقی جدوجہد چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ پاکستانی حکومت اس حقیقت کا ادراک کرے کہ دونوں ملک ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں۔
ان کے بقول، "اس آگ کو بجھانے میں پاکستانی حکومت کا کردار انتہائی اہم اور ضروری ہے"۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پڑوسی ملک ابتری کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی حکام دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ، "صورتِ حال ہر ایک کے کنٹرول سے نکلی جارہی ہے اور ایسا ہونا نہ تو دونوں ملکوں اور نہ ہی خطے کے مفاد میں ہے"۔
پریس کانفرنس میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے بھی پاکستانی عالمِ دین کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرحدوں کے آس پاس موجود شدت پسندوں کو لگام دینے کے لیے مزید اقدامات کرے۔