افغان طالبان کی جانب سے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کرنے کی اطلاعات ہیں جو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر زور دے گا کہ وہ پاکستان کے خلاف حملے روک دیں۔
پیش رفت سے آگاہ اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی ذریعے نے وائس آف امریکہ کے ایاز گل کو اس کمیشن سے متعلق بتایا کہ پاکستان کی شکایات کے پیشِ نظر تین رُکنی کمیشن طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی ہدایت پر حال ہی میں بنایا گیا ہے۔
ذرائع نے وائس آف امریکہ کو مزید بتایا کہ کمیشن نے پاکستانی طالبان کو خبردار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات حل کریں اور پاکستانی حکومت کی جانب سے عام معافی کے عوض اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ پاکستان چلے جائیں۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد افغان سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان میں سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
البتہ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد ملک چھوڑ جانے والے اشرف غنی کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
پاکستان اور افغان طالبان نے اس پیش رفت پر تاحال کوئی باضابطہ مؤقف جاری نہیں کیا۔
جمعے کو پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا تھا کہ پاکستان، تحریکِ طالبان پاکستان کا معاملہ افغان طالبان کے سامنے رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اپنی ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران زاہد حفیظ چوہدری نے کہا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف کارروائیوں کا معاملہ سابقہ افغان حکومت کے سامنے بھی رکھتے رہے ہیں اور اب مستقبل کی افغان حکومت پر بھی زور دیں گے کہ وہ یقینی بنائے کہ ٹی ٹی پی پاکستان پر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال نہ کرے۔
البتہ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پیش رفت سے آگاہ ذریعے نے بتایا کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے مطالبات تسلیم کر لے گا۔
اُن کے بقول پاکستانی قانون کے مطابق عام معافی ہتھیار ڈال کر پاکستان کے خلاف آئندہ کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہ ہونے کی یقین دہانی پر مل سکتی ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے تحریکِ طالبان پاکستان کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں طے پانے والے دوحہ امن معاہدے میں بھی افغان طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے دوحہ دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بتایا کہ "یہ تحفظات جائز ہیں اور ہماری یہ واضح پالیسی ہے کہ ہم کسی کو بھی افغان سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک بشمول پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ چاہے وہ تحریکِ طالبان پاکستان ہے یا کوئی اور تنظیم ان کی اب افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ سب کے لیے واضح پیغام ہے۔
افغانستان پر کنٹرول کے بعد طالبان ہمسایہ ممالک سمیت خطے کے دیگر ممالک کے تعاون کے خواہاں ہیں جب کہ دگرگوں معاشی صورتِ حال اور دیگر مسائل سے نمٹنا بھی اُن کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغان طالبان کے لیے پاکستان سمیت اُن ممالک کے تحفظات نظرانداز کرنا مشکل ہو گا جو افغان سرزمین کے دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی شکایات کرتے آئے ہیں۔
اسلام آباد میں ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر افغان طالبان انسدادِ دہشت گردی سے متعلق اپنے وعدوں پر قائم نہ رہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اُن سے بدظن ہو جائیں گی۔
خیال رہے کہ پاکستان کے علاوہ یہ مذکورہ ریاستیں بھی افغان سرزمین کے اپنے خلاف استعمال ہونے کی شکایات کرتی آئی ہیں۔
ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "کیا وہ (افغان طالبان) ٹی ٹی پی کی حمایت کر کے اپنی بندوقوں کا رُخ ہماری طرف کریں گے؟ نہیں ایسا اُن کے لیے ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ چاروں طرف خشکی سے گھرے افغانستان کی تجارت کا انحصار ہم پر ہے۔"
طالبان نے 15 اگست کو بغیر کسی خون ریزی کے کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور اب وہ جامع حکومت کے لیے دیگر افغان فریقوں سے بھی رابطے کر رہے ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی حکومت تسلیم کرا سکیں۔
ادھر پاکستان نے حالیہ عرصے کے دوران افغانستان سے ملحقہ طویل ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ پاکستانی فوج کے مطابق اس غیر معمولی منصوبے کا 90 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے جس سے سرحد پار دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے۔
خیال رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے ردِعمل میں 2007 میں وجود میں آنے والی تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، پاکستان میں درجنوں دہشت گردی کے واقعات میں ہزاروں افراد کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔
ناقدین اب بھی شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کہ آیا افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور چین مخالف ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ جیسے گروہوں کو پریشان کرنا چاہیں گے یا نہیں جو امریکہ کے خلاف لڑائی میں افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑتے رہے ہیں۔