پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کی صاحبزادی کے مبینہ اغوا اور تشدد کی تحقیقات کے حوالے سے ایک افغان ٹیم کی پاکستان آمد کی تصدیق کی ہے۔
پیر کو ایک بیان میں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان سفیر کی بیٹی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے تمام معلومات سے افغان ٹیم کو آگاہ کرے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر افغان ٹیم چاہے تو ان ٹیکسیوں کے ڈرائیورز کے ساتھ ملاقاتیں کر سکتی ہیں جن میں سفیر کی بیٹی نے سفر کیا تھا۔
خیال رہے کہ افغان سفیر نے حال ہی میں بتایا تھا کہ ان کی صاحبزادی ڈبل ماسٹرز پروگرام کی تعلیم کے لیے بیرون ملک روانہ ہو چکی ہیں۔ افغان سفیر نے اپنی صاحبزادی کی رخصت ہوتے ہوئے ملنے کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر شئیر کی تھی۔
افغان سفیر کی صاحبزادی نے پولیس کو بیان دیا تھا کہ اُنہیں 16 جولائی کو اسلام آباد میں اغوا کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنانے کے چند گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا تھا اس معاملے کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
افغانستان نے احتجاجاً اسلام آباد میں اپنے سفارت خانے سے تمام عملہ بھی واپس بلا لیا تھا۔
البتہ پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات اور سیف سٹی کیمروں کی فوٹیجز میں اس بات کے شواہد سامنے نہیں آئے کہ افغان سفیر کی بیٹی کو اغوا کیا گیا تھا۔
افغانستان کے وزیرِ خارجہ حنیف آتمر نے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے رابطے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ٹیم بھجوانے کا اعلان کیا تھا۔
اسلام آباد میں افغان ٹیم کی مصروفیات
چار رکنی افغان ٹیم اتوار کو اسلام آباد پہنچی تھی اور پیر کو ان کی مختلف حکام سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
افغان ٹیم نے وزارتِ داخلہ اور دفتر خارجہ میں حکام سے ملاقات کی ہے جہاں انہیں ابتدائی طور پر سی سی ٹی وی فوٹیجز اور گواہوں کے بیانات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
وزیرداخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی ہے کہ اپنی تحقیقاتی رپورٹ افغان ٹیم کو دیں۔ ضرورت ہوئی تو افغان ٹیم ٹیکسی ڈرائیورز سمیت 11 افراد سے بھی انٹرویو کر سکتی ہے۔
شیخ رشید نے کہا کہ افغان سفیر کی بیٹی ہماری بیٹیوں کی طرح ہے، پولیس نے 11 لوگوں کو پکڑا تھا جن میں چار ٹیکسی ڈرائیور شامل ہیں۔ ان سے تفتیش کا ریکارڈ موجود ہے۔ اسلام آباد پولیس افغان تفتیشی حکام کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے بھی تیار ہے۔
افغان وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا تھا کہ سفیر کی بیٹی 16 جولائی کو اسلام آباد میں اغوا ہوئی اور ان پر سخت جسمانی اور ذہنی تشدد کیا گیا۔
افغان وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں افغان سفارت خانہ کھولنے یا نہ کھولنے سے متعلق فیصلہ افغان ٹیم کی تحقیقات کی روشنی میں کیا جائے گا۔
البتہ پاکستانی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر کی جانے والی تحقیقات اور کئی سو گھنٹوں کی ویڈیو ریکارڈنگ میں اغوا اور تشدد کے شواہد نہیں ملے۔
افغان سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل کے مطابق اُنہیں 16 جولائی کو اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے لیے تحفہ لینے گئی تھیں۔
ان کے بیان کے مطابق اسلام آباد میں بلیو ایریا سے واپسی پر ان کی ٹیکسی میں ایک نامعلوم شخص زبردستی گھس گیا اور اس نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ بعد میں انہیں دامنِ کوہ کے مقام پر گندگی کے ڈھیر کے قریب چھوڑا اور بعد ازاں وہ ایف نائن پارک پہنچیں جہاں سے انہوں نے اپنے والد کے دفتری عملے کو بلایا اور گھر پہنچیں۔
اسلام آباد پولیس کیا کہتی ہے؟
اسلام آباد پولیس کے آئی جی قاضی جمیل الرحمن کے مطابق اس کیس میں اب تک 300 سے زائد کیمروں کی 700 گھنٹوں کی فوٹیج کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد اس واقعہ میں ملوث تمام ٹیکسی ڈرائیورز کو حراست میں لے لیا گیا۔
اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ افغان سفیر کی صاحبزادی اپنی رہائش گاہ سے سیکٹر جی سیون میں واقع کھڈا مارکیٹ اور اس کے بعد راولپنڈی گئیں۔ جہاں سے وہ دامنِ کوہ اور اس کے بعد ایف سکس اور پھر ایف نائن پارک پہنچیں۔ اس دوران انہوں نے تمام سفر مختلف ٹیکسیوں پر کیا اور پولیس کی تحقیقات کے مطابق کسی بھی جگہ ان پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔
پولیس کے مطابق چار ٹیکسی ڈرائیورز کو حراست میں لیا گیا اور وہ تمام تشدد کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ پولیس کے مطابق انہیں جو موبائل فون دیا گیا اس کا تمام ڈیٹا ضائع کر دیا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس کے اس معاملہ کی تفتیش میں شامل ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ افغان سفارت خانے کی طرف سے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب ابھی حل طلب ہیں۔
اُن کے بقول افغان سفیر کی بیٹی راولپنڈی جانے کو تسلیم نہیں کر رہی جب کہ ہمارے پاس اس کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔